Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور مچھلی والے (پیغمبر کا بھی ذکر کیجیے) جب کہ وہ خفا ہو کرچکے گئے،115۔ اور یہ سمجھے کہ ہم ان پر تنگی نہ کریں گے،116۔ پھر انہوں نے اندھیروں میں سے پکارا،117۔ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی (سب نقائص سے) پاک ہے بیشک میں ہی قصور وار ہوں،118۔
115۔ (اپنی قوم سے جب کہ وہ لوگ ایمان نہ لائے) مغاضبا لقومہ (بیضاوی) اے غضبان علی قومہ (روح) بعض صحابہ وتابعین سے جو تفسیر مغاضبالربہ منقول ہے سو یہ تفسیر خود تشریح طلب ہے۔ لربہ کے معنی یہاں کئے جاویں گے لاجل ربہ وحمیۃ لدینہ یعنی اپنے پروردگار کی خاطر، اور اپنی غیرت دینی کے باعث اور کلمہ لہ کو موصولہ نہیں بلکہ لام علت کے معنی میں لیں گے۔ لم یفعلہ الا غضبا للہ وانفۃ لدینہ وبغضا للکفر (کشاف ( 116۔ (ان کے بلاانتظار وحی چلے جانے پر) حضرت یونس (علیہ السلام) اپنے اجتہاد سے یہ سمجھے کہ جب قوم پر سے عذاب ٹل گیا گو اب یہاں ٹھہرنا ضروری نہیں اور نہ میرے چلے جانے میں کوئی ہر ج ہے۔ اس لئے بلاانتظار وحی کیا جاتا۔ (آیت) ” لن نقدر “۔ قدر بمعنی استطاعت وقابو نہیں، ضیق وتنگی کے مفہوم میں ہے۔ قدرت سے نہیں تقدیر سے ہے۔ فسرت بالتضئیق علیہ (کشاف) اے ان لن نضیق علیہ (کبیر) ذوالنون حضرت یونس (علیہ السلام) ہی کا لقب ہے اور حضرت یونس (علیہ السلام) پر حاشیے پارہ 11 سورة یونس میں گزر چکے۔ 117۔ پارہ 23 میں یہ قصہ ذرا تفصیل سے آئے گا۔ مختصر یہ کہ آپ جس جہاز پر تھے اس کے جہاز رانوں نے آپ کو مجرم سمجھ کر طوفان کے وقت سمندر میں پھینک دیا، کوئی ایک مچھلی شارک یا وہیل کے قسم کی آپ کو نگل گئی۔ یہ مناجات آپ شکم ماہی سے فرما رہے ہیں۔ ظلمت۔ صیغہ جمع ہے دریا کے نیچے کا اندھیرا، مچھلی کے پیٹ کے اندرکا اندھیرا۔ صیغہ جمع سے متعدد تاریکیاں مراد ہیں۔ 118۔ (کہ میرے منصب کے مناسب وحی الہی کا انتظار کرنا تھا، میں بغیر اس انتظار کے نکل کھڑا ہوا) آپ کا اپنے کو ظالم کہنا اسی معنی میں ہے کہ میں ترک عزیمت وافضلیت کا مرتکب ہوا، ہر نعمت ایک خاص مقام عبودیت کو مقتضی ہوتی ہے اور ایک خاص درجہ ادائے حقوق کا چاہتی ہے۔ اس درجہ و مرتبہ کے ادائے حقوق میں کمی یا کوتاہی راہ جانا ظلم ہے۔ آپ ظلم کا اطلاق اپنے حق میں اسی معنی میں کررہے ہیں۔
Top