Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 91
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَالَّتِيْٓ : اور عورت جو اَحْصَنَتْ : اس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرمگاہ (عفت کی) فَنَفَخْنَا : پھر ہم نے پھونک دی فِيْهَا : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَجَعَلْنٰهَا : اور ہم نے اسے بنایا وَابْنَهَآ : اور اس کا بیٹا اٰيَةً : نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور ان بیوی کا بھی (ذکر کیجیے) جنہوں نے اپنے ناموس کو بچا لای،125۔ پھر ہم نے ان میں اپنی روح پھونک دی،126۔ اور ہم نے ان کو اور ان کے فرزند کو دنیا جہان والوں کے لئے ایک نشان بنادیا،127۔
125۔ (مردوں سے تمامتر یعنی نکاح سے بھی اور ناجائز صورتوں سے بھی) مراد مریم بنت عمران (علیہا السلام) ہیں۔ حاشیے سورة آل عمران پ 3 میں گزر چکے۔ یہود جو گندے الزامات آپ پر لگا چکے تھے اور جو آج تک ان کی کتابوں میں منقول چلے آتے ہیں ان کے پیش نظرایسی ہی وضاحت وتصریح سے آپ کی صفائی پیش ہونے کی ضرورت تھی ، 126۔ (بہ واسطہ جبرئیل اور اس سے ان کو بےشوہر حمل رہ گیا) (آیت) ” نفخنا فیھا من روحنا “۔ نفخ روح تو ہر انسان کے لئے ہوتا رہتا ہے، یہ نفخ روح ایک خاص طریقہ پر، معمول عام سے الگ، بہ واسطہ جبرئیل کیا گیا، اس کی تفصیلی کیفیت نہ معلوم ہوسکتی ہے، نہ معلوم کرنے کی ضرورت۔ یہاں تفہیم قرآنی کے سلسلہ میں صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ نفخ روح کی اضافت حق تعالیٰ کی طرف صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اظہار عظمت کے لئے ہے۔ والا ضافۃ الیہ تعالیٰ لتشریف عیسیٰ (علیہ السلام) (مدارک) 127۔ (اپنی کمال قدرت کا کہ ہم پر چیز کی تکوین پر قادر ہیں، اسباب عادیہ کے واسطہ سے بھی اور بلاواسطہ بھی) (آیت) ” ابنھا “۔ فرزند مریم سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں ........ عقیدۂ ابن اللہ کی تردید میں ابن مریم کی تصریح بار بار ضروری تھی۔
Top