Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ اِ۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ اِ۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّعْبُدُ : بندگی کرتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر حَرْفٍ : ایک کنارہ فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَهٗ : اسے پہنچ گئی خَيْرُ : بھلائی ۨ اطْمَاَنَّ : تو اطمینان پالیا بِهٖ : اس سے وَاِنْ : اور اگر اَصَابَتْهُ : اسے پہنچی فِتْنَةُ : کوئی آزمائش ۨ انْقَلَبَ : تو پلٹ گیا عَلٰي : پر۔ بل وَجْهِهٖ : اپنا منہ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا : دنا کا فساد وَالْاٰخِرَةَ : اور آخرت ذٰلِكَ : یہ ہے هُوَ الْخُسْرَانُ : وہ گھاٹا الْمُبِيْنُ : کھلا
اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی پرستش کنارہ پر (کھڑا ہوکر) کرتا ہے پھر اگر اسے کوئی نفع پہنچ گیا (تو) وہ اس پر جما رہا اور اگر (کہیں) اس پر کوئی آزمائش آپڑی تو وہ منہ اٹھا کر واپس چل دیا،16۔ (یعنی) دنیا وآخرت (دونوں) کو کھو بیٹھا یہی انتہائی محرومی ہے
16۔ (کفر کی طرف) مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک مذہب کی صداقت وحقانیت بجائے خود کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ اگر مسلمان رہنے سے انہیں کوئی دنیوی منافع حاصل ہورہے ہیں تو یہ بھی اپنے کو مسلمان کہیں گے اور مسلمان سمجھیں گے۔ لیکن اگر وقتوں اور دشواریوں کا سامنا ہوا تو بس یہ جھٹ سے الگ ہوگئے۔ اور کھلم کھلا بھی اپنی بےدینی کا اظہار کرنے لگے۔ آج دنیا کے 40 کروڑ مسلمانوں کے اندر بھی یہ مرض کس کثرت سے پھیلتا جارہا ہے کہ اسلام کی قدر گویا صرف منافع دنیوی کے لحاظ سے، اور اس کی قیمت صرف مصالح مادی کے تناسب سے ہے۔ (آیت) ” من یعبداللہ علی حرف “۔ یعنی اسلام اس نے قبول تو کرلیا ہے لیکن ایسی بےدلی کے ساتھ اور ایسے اوپری دل سے کہ جیسے کوئی شخص کسی چیز کے کنارے کھڑا ہو اور جیسے موقع پاتے ہی اسے چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو، ذکر منافقین کا ہورہا ہے۔
Top