Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 30
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
یہ بات ہوچکی اور جو کوئی بھی اللہ کے محترم احکام کا ادب کرے گا سو یہ اس کے حق میں اس کے پروردگار کے پاس بہتر ہوگا،45۔ اور اللہ نے حلال کردیئے ہیں تمہارے لئے چوپائے بجز انکے کہ جو تم کو پڑھ کر سنا دیئے گئے،46۔ سو تم بچے رہو بتوں کی گندگی سے اور بچے رہو جھوٹی بات سے،47۔
43۔ نذر کے تحت میں ہر وہ چیز داخل ہے جو اپنے اوپر واجب کرلی گئی ہو۔ یہاں وہ تمام اعمال مراد ہیں جو خود عمل حج کے ضمن وذیل میں لازم ہوں، مثلا منی میں تین نشانوں پر کنکریاں پھینکنا یا جو قربانیاں وغیرہ از خود اپنے اوپر لازم کرلی گئی ہوں۔ (آیت) ” ولیوفوا “۔ صیغہ امر وجوب کے معنی میں ہے۔ والامر علی الوجوب (جصاص) نذر جس مراد کیلئے بھی مانی جائے، چاہیے کہ ہمیشہ اللہ ہی کے نام کی ہو۔ کسی اور کے نام کی نذر حرام ہے۔ 44۔ یہ طواف فرض ہے اور اصطلاح فقہ میں طواف الزیارۃ یا طواف الافاضہ کہلاتا ہے۔ (آیت) ” ولیطوفوا “۔ یہاں بھی صیغہ امر وجوب ہی کے لیے ہے۔ ظاھرہ یقتضی الوجوب لانہ امر والاوامر علی الوجوب (جصاص) (آیت) ” البیت العتیق “۔ کے ایک معنی تو خانہ قدیم کے ہیں۔ قیل للقدیم العتیق (راغب) العتیق القدیم (ابن جریر۔ عن ابن زید) العتیق القدیم قالہ الحسن وابن زید (بحر) سمی بہ لانہ قدیم (معالم۔ عن الحسن وابن زید یعنی وہ گھر جو شروع ہی سے معبد الہی ہے۔ خانہ کعبہ کی تاریخ اتنی پرانی ہوچکی ہے کہ خود تاریخ کو بھی اب یاد نہیں رہی ہے۔ اب اس کی قدامت کی شہادت خود مخالفین بھی دے رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ دوسرے معنی خانہ محفوظ کے ہیں۔ یعنی وہ گھر جو امن کی جگہ بنادیا گیا ہے اور جباروں کی گرفت سے آزاد رہا ہے۔ المقتضی من الجبایرۃ قالہ ابن الزبیر وابن ابی بخیح وقتادۃ (بحر) 45۔ یعنی احکام مخصوص کا بیان تو ہوچکا۔ اب عام کلیہ یہ بیان ہوتا ہے کہ جو بھی احکام الہی سنے، جو کوئی ان کا ادب ولحاظ رکھے گا علما اس طرح کہ انہیں حاصل کرے اور عملا اس طرح کہ ان کی خلاف ورزی نہ کرے۔ سو یہ احکام الہی کا ادب واحترام اسی کام آئے گا۔ اور سبب بن جائے گا بلندی درجات کا، عفو سیئات کا، حصول خیروبرکات کا۔ (آیت) ” حرمت اللہ “۔ جو چیزیں بھی محبت و تقرب سے اللہ کی جانب منسوب ہیں وہ سب اس میں داخل ہوگئیں مثلا احکام الہی، کتب دین، مکانات مقدس، اوقات متبرک، بندگان مقرب (ملائکہ، انبیاء، صالحین) آثارکاملین وغیرہا۔ لہ میں ل تخصیص کا ہے۔ یعنی فائدہ خوداسی کا ہے۔ کسی اور کا نہیں۔ 46۔ یعنی بجز ان چوپایوں کے جن کی حرمت قرآن ہی کی دوسری آیتوں میں مذکور ہے اور سب چوپائے تمہارے لیے حلال ہیں۔ حدود حرم کے اندر ممانعت شکار کی ہے نہ کہ ذبح کی۔ 47۔ (خصوصا شرک جیسے کذب اعظم سے) (آیت) ” قول الزور “۔ جھوٹی بات کے تحت میں ہر جھوٹ آجاتا ہے۔ لیکن دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ کلمہ توحید کے برخلاف کلمہ شرک کا اقرار ہے۔ (آیت) ” الرجس من الاوثان “۔ گندگی یہی کہ بتوں کو معبودیت میں شریک کرلیاجائے۔
Top