Tafseer-e-Majidi - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور ہم نے ان دونوں کو بلند زمین پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل اور شاداب تھی،47۔ اے پیغمبر نفیس کھاؤ اور نیک عمل کرو،48۔ میں خوب جانتا ہوں تمہارے کئے ہوئے کاموں کو
47۔ یہ مقام کون سا تھا ؟ اور واقعہ کب کا ہے ؟ بعض اہل تفسیر ادھرگئے ہیں کہ یہ ذکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت کا ہے۔ اس وقت حضرت مریم (علیہا السلام) کسی بلند ٹیلہ پر مقیم تھیں۔ اور نیچے چشمہ پر رہا تھا جیسا کہ سورة مریم میں ہے۔ (آیت) ” قدجعل ربک تحتک سر یا “۔ ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ لیکن اکثر محققین کی رائے میں اس سے مراد ملک مصر ہے اور آیت کا تعلق ایک دوسرے قصہ سے ہے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش کے زمانہ میں ملک شام کا حاکم ہیرو دیس (HEROD) تھا اور وہ نجوم وکہانت کے عروج کا زمانہ تھا۔ انجیل کی روایت ہے کہ اسے نجومیوں سے یہ پتہ چلا کہ اسرائیلیوں کا آیندہ بادشاہ ایک گھر میں تولد ہوگیا ہے۔ اور وہ گھر حضرت مریم (علیہ السلام) کے شوہر یوسف نجار کا تھا۔ اس نے چاہا کہ اس بچہ کو پکڑ کر قتل کرڈالے اور آیندہ کے لئے اندیشہ ہی باقی نہ رہے۔ یوسف اس کے قبل ہی غیبی اطلاع پاکر مع حضرت مریم و عیسیٰ (علیہ السلام) کے وطن چھوڑ کر مصر کے لئے روانہ ہوگئے۔” خداوند کے فرشتہ نے یوسف کو خود میں دکھائی دے کر کہا کہ اٹھ بچہ اور اس کی ماں کو ساتھ لیکر مصر کو بھاگ جا۔ اور جب تک میں تجھ سے نہ کہوں وہیں رہنا۔ کیونکہ ہیرودیس اس بچہ کو تلاش کرنے کو ہے تاکہ اسے ہلاک کردے پس وہ اٹھا اور رات کے وقت بچہ اور اس کی ماں کو ساتھ لیکر مصر کو روانہ ہوگیا۔ اور ہیرودیس کے مرنے تک وہیں رہا۔ “ (متی 2: 13، 14) (آیت) ” اوینھما “۔ سے بھی اشارہ یہی نکلتا ہے کہ موقع کوئی خطرہ کا تھا جس سے مریم (علیہ السلام) کا بچایا گیا۔ اور مفسرین کا بھی ایک بڑا گروہ اسی طرف گیا ہے۔ لیس الربی الابمصر (ابن کثیر۔ عن ابن زید) وروی عن وھب بن منبہ نحوھذا (ابن کثیر) قال الکلبی وابن زیدھی بمصر (کبیر) (آیت) ” ربوۃ “۔ کے لفظی معنی ٹیلہ یا بلند زمین کے ہیں۔ ھی الارض المرتفعۃ (کشاف) ھی ما ارتفع من الجبل دون الارض (روح دوسرے مقامات مثلا دمشق، رملہ، ایلیاء، بیت المقدس وغیرہ کے نام بھی نقل ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن کا حاشیہ۔ 48۔ اور پیغمبروں ہی کے ضمن میں حکم انکی امتوں کا بھی آگیا۔ (آیت) ” کلوا من الطیبت “۔ میں ذکر تکوینی نعمت کا ہے۔ (آیت) ” واعملوا صالحا “۔ میں حکم تشریعی ہے۔ نفیس ولذیذچیزوں سے مراد ظاہر ہے کہ صرف حلال غذائیں ہیں۔ حرام غذا میں اگر لذت ہے بھی تو محض عارضی وفوری، جس پر حقیقۃ لذت کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ محققین صوفیہ نے کہا ہے کہ آیت میں رہبانیت کا بھی ابطال ہے جس میں بعض غالی مبتلا ہیں۔
Top