Tafseer-e-Majidi - Al-Muminoon : 7
فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ
فَمَنِ : پس جو ابْتَغٰى : چاہے وَرَآءَ : سوا ذٰلِكَ : اس فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْعٰدُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
ہاں جو کوئی اس کے علاوہ کا طلب گار ہوگا سو ایسے ہی لوگ تو حد سے نکل جانے والے ہیں،5۔
5۔ (اور بڑے سخت نافرمان) آیت کا مطلب یہ ہے کہ قضائے شہوت بجائے خود ہرگز محل الزام نہیں اور جس طرح بھوک، پیاس، نیند وغیرہ کی ضرورتیں فطری ہیں یہ خواہش بھی طبعی ہے۔ قابل الزام صرف اس کا بےمحل استعمال ہے۔ (آیت) ” ماملکت ایمانھم “۔ باندیوں سے مراد ظاہر ہے کہ صرف شرعی باندیاں ہیں نہ کہ عرفی۔ حاشیہ پہلے گزر چکا ہے۔ بیویوں اور باندیوں کے حلال ہونے سے مراد ان کی جنس کا حلال ہونا ہے۔ نہ یہ کہ بیوی اور باندی سے صحبت ہر صورت اور حال میں جائز ہے ملاحظہ ہوں حواشی تفسیر انگریزی۔ (آیت) ” علی ازواجھم “۔ میں علی مرادف ہے من کے۔ فراء نحوی وابن مالک نحوی وغیرہ سے یہی قول منقول ہے۔ (بحر) (آیت) ” ورآء ذلک “۔ فقہائے اہل سنت نے ان الفاظ سے متعہ کے حرام ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ متعہ والی عورت نہ ازواج کے حکم میں ہوتی ہے نہ (آیت) ” ماملکت ایمانھم “۔ کے تحت میں۔ یقتضی تحریم نکاح المتعۃ اذ لیست بزوجۃ ولا مملوکۃ یمین (جصاص) زنا کاری اور شہوت رانی کی جتنی بھی غیر فطری صورتیں رائج ہوگئیں ہیں سب اسی کے حکم میں آجائیں گی، ولا یخفی ان کل مایدخل فی العموم تفید الایۃ حرمۃ متعۃ علی ابلغ وجہ (روح) یعنی ان ساری حرکتوں کے کرنے والے نافرمان مجرم ہیں۔ (آیت) ” العدون “ یعنی بڑے شدید نافرمان۔ الکاملون فی العدوان والمتناھون فیہ (روح)
Top