Tafseer-e-Majidi - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
تو تم بڑی مصیبتوں میں پڑجاتے) ،15۔ بیشک جن لوگوں نے یہ طوفان برپا کیا ہے،16۔ وہ تم میں سے ایک (چھوٹا سا) گروہ ہے،17۔ تم اس کو برا نہ سمجھو اپنے حق میں،18۔ بلکہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے،19۔ ان میں سے ہر شخص کو جس نے جتنا کچھ کیا تھا گناہ ہوا،20۔ اور جس نے ان میں سے سب سے بڑا حصہ لیا اس کے لئے سزا بھی (سب سے بڑھ کر) سخت ہے،21۔
15۔ خطاب یہاں ساری امت کو ہے، مردوں عورتوں سب کو، مطلب یہ ہے کہ امت کے ہاتھ میں کیسا جامع، کیسا پر حکمت قانون دے دیا گیا ہے۔ زبردستوں، زیردستوں، عاصیوں، مظلوموں سب کی مصلحتوں کی رعایت کرنے والا۔ اتنا مکمل قانون صرف خدائی ہی قانون ہوسکتا ہے۔ 16۔ 6 ہجری کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوۂ بنی مصطلق سے مدینہ منورہ واپس تشریف لارہے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ ہمراہ تھیں، آپ کی سواری کا اونٹ علیحدہ تھا۔ اس پر ہودج تھا، آپ ہودج میں پردہ چھوڑ کر بیٹھ جاتیں، جمال ہودج کو اٹھاکراونٹ پر باندھ دیتے۔ آپ ہلکی پھلکی کم سن تھیں۔ ایک روز اتفاق سے ایک منزل پر آپ کو ہودج سے باہر ویرانہ کی طرف جانے کی ضرورت پیش آئی۔ واپس آئیں تو قافلہ کوچ کرچکا تھا۔ ہودج پر پردے پڑے ہوئے تھے۔ جمالوں کا خیال بھی ادھر نہ گیا، کہ آپ موجود نہیں ہیں۔ اب جب آپ آئیں تو سخت متاسف ہوئیں۔ لیکن آپ نے خیال کیا کہ آگے چل کر جب میری تلاش ہوگی اور میں نہ ملوں گی تو کوئی ڈھونڈنے بہرحال یہاں ضرور ہی آئے گا۔ رات کا وقت چادر لپیٹ کر آپ وہیں بیٹھ گئیں۔ اور آپ کو نیند آگئی۔ ایک صحابی حضرت صفوان ؓ تھے۔ انکی ڈیوٹی یہ تھی کہ قافلہ سے کچھ فاصلہ پر پیچھے پیچھے چلا کریں۔ گری پڑی چیز کی، بھولے بھٹکے کی خبر گیری کے لیے۔ وہ جب صبح سویرے یہاں پہنچے تو دیکھا کوئی انسان سو رہا ہے۔ قریب پہنچے تو پہچانا اور بےاختیار پکار اٹھے۔ (آیت) ” انا للہ وانا الیہ رجعون “۔ آواز سے حضرت صدیقہ ؓ کی آنکھ کھل گئی، منہ ڈھانپ لیا۔ انہوں نے اپنا اونٹ قریب لا کر بٹھا دیا۔ ام ال مومنین پردہ کے ساتھ سوار ہوگئیں، انہوں نے اونٹ کی نکیل تھامے قافلہ میں جا کر ملا دیا۔ بات کچھ بھی نہ تھی لیکن مدینہ منافقوں کا گھر تھا۔ ان کے سردار عبداللہ بن ابی کو ایک شگوفہ ہاتھ آگیا۔ اپنی خباثت سے خوب خوب حاشیہ آرائی کی۔ اور گنتی کے تین مسلمان بھی سنی سنائی اس کی باتوں کو دہرانے لگے۔ تمام پاکیزہ خصلت، پاکیزہ مزاج مسلمانوں کو اس گندے تذکرہ سے جیسی کلفت ہوئی ہوگی ظاہر ہی ہے۔ خصوصا جناب صدیقہ ؓ اور خود حضرت رسول اللہ ﷺ کو، یہاں تک کہ ایک مہینہ کے بعد برأت کی یہ آیتیں خود قرآن مجید میں نازل ہو کر رہیں۔ نبی کی زندگی کا ایک ایک جزئیہ امت کے حق میں رحمت ہے، برکت ہے، امت کی کتنی نیک، پارسابیویوں پر آج بھی کیسی کیسی تہمتیں لگتی رہتی ہیں، ان سب بیچاریوں کو اس واقعہ سے صبر وتسکین کا کتنا بڑا سہارا ہاتھ آگیا۔ 17۔ یعنی ایک تو وہی منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھ کل تین مسلمان۔ دو مرد حسان بن ثابت اور مسطح ؓ “۔ اور تیسری ایک عورت حمنہ بنت جحش۔ (آیت) ” عصبۃ منکم “۔ سے اصل مراد تو مسلمان ہی ہیں۔ باقی (آیت) ” منکم “۔ کے عمومی اطلاق میں منافقوں کو بھی ان کے دعوی اسلام میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ اور اسکی مثال قرآن مجید میں بارہا ملے گی۔” گروہ قلیل “ کے لفظ میں تسکین کا پہلو بھی حضرت صدیقہ ؓ اور حضرت رسول اللہ ﷺ کے لئے ہے۔ 18۔ خطاب عام امت اسلامیہ سے ہے جیسے قدرۃ اس موقع پر غم بھی تھا اور غصہ بھی۔ اور جن پر خود تہمت لگی تھی وہ تو بدرجہ اولی اس کے مخاطب ٹھہرے۔ 19۔ تہمت زدہ اشخاص کو بدنامی ورسوائی کا رنج ہونا ایک امر طبعی تھا۔ قرآن مجید انہیں تسلی دے رہا ہے کہ اول تو بدنامی ہی کیا۔ تہمت کا مخترع ایک مسلم منافق (اور وہ بھی تعداد میں کل ایک) اور اس کے پھیلانے والے اور اس میں شریک ہونے والے اسلامی آبادی کے کل تین بھولے بھالے فرد ! پھر خیر تھوڑی بہت جو کچھ بھی یہ بدنامی ورسوائی ہوئی اس پر اجر بھی تو سوچو کتنا عظیم الشان ملے گا ! اس کے سامنے اس دار آنی وفانی کی بدنامی کی حقیقت ہی کیا ! اور سب سے بڑی نعمت یہ کہ خود قرآن مجید تمہاری صفائی پیش کررہا ہے ! ایسی نعمت کس کے نصیب میں آتی ہے۔ اتنا ہی نہیں ! تمہارے ہی واقعہ سے ایک عام ضابطہ و قانون بھی تو امت کو ہمیشہ کے لیے مل رہا ہے۔ صوفیہ محققین نے کہا ہے کہ آیت میں اشارہ ہے کہ مشائخ کو اس بات پر غمگین نہ ہونا چاہیے کہ منکرین ان سے تشنیع و انکار سے پیش آتے ہیں۔ اس سے تو اور ان کے مرتبہ میں ترقی ہوتی ہے۔ 20۔ (اس کے درجہ معصیت کے مطابق) مثلا ایک تو وہ ہے جس نے اس فتنہ کا اختراع کیا، دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اپنی زبان سے اسے دہرایا۔ تیسرے وہ جنہوں نے سن کر سکوت اختیار کیا۔ سو ضرر تو انہیں لوگوں کے حق میں ہوا۔ مسلمانوں کو تو بجائے ضرر کے نفع ہی ہوا۔ 21۔ (اور وہ عذاب ہے دوزخ کا۔ اس کا مستحق تو اپنے کفر وعداوت رسول کی بنا پر وہ پہلے ہی سے تھا اب اور زیادہ مستحق عقوبت کا ہوگیا) مراد اس سے وہی مخترع افک، عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین ہے۔
Top