Tafseer-e-Majidi - An-Noor : 3
اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً١٘ وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ١ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيْ : بدکار مرد لَا يَنْكِحُ : نکاح نہیں کرتا اِلَّا : سوا زَانِيَةً : بدکار عورت اَوْ مُشْرِكَةً : یا مشرکہ وَّالزَّانِيَةُ : اور بدکار عورت لَا يَنْكِحُهَآ : نکاح نہیں کرتی اِلَّا زَانٍ : سوا بدکار مرد اَوْ مُشْرِكٌ : یا شرک کرنیوالا مرد وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
زنا کار مرد نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا بجز زنا کار عورت یا مشرکہ عورت کے،5۔ اور زنا کار عورت کے ساتھ بھی کوئی نکاح نہیں کرتا بجز زانی یا مشرک کے،6۔ اور اہل ایمان پر یہ حرام کردیا گیا ہے،7۔
5۔ (آیت) ” مشرکۃ۔ زانیۃ “۔ مشرکہ سے مراد وہ مشرک عورت ہے جو حالت شرک میں ہو نہ کہ وہ جو کسی زمانہ میں مشرک رہ چکی ہو، اور اب تائب ہو کر مسلمان ہوچکی ہو۔ ایسی کے ساتھ نکاح بالکل درست ہے۔ اسی طرح زانیہ بھی وہ ہے جو فی الحال زنا میں مبتلا ہو نہ کہ وہ جس سے کسی زمانہ میں یہ معصیت صادر ہوئی اور اب وہ تائب ہوکرپاکبازی کی زندگی بسر کررہی ہو۔ تائبہ سے نکاح کے عدم جواز کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہاں ممانعت تو صرف ان سے نکاح کی ہورہی ہے جو فی الحال مشرکہ یا زانیہ ہیں۔ اس ایک حقیقت کو مستحضر رکھنے سے آیت پر عاید ہونے والے اعتراضات از خود ختم ہوتے جاتے ہیں۔ 6۔ بہت سی جاہلی قوموں میں یہ دستور بھی رہا ہے کہ عورت ایک طرف کسی کے نکاح میں بھی ہے اور دوسری طرف شوہر کے علم میں بلکہ اس کی اجازت سے زناکاری میں بھی مبتلا ہے۔ اور یہ دستورعرب میں بھی موجود تھا۔ آیت قرآنی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسی بےعصمت عورت کی طرف کوئی رغبت کر بھی کیسے سکتا ہے۔ جب تک کہ وہ خود بھی ایسی ہی مسخ شدہ ذہنیت کا شکارنہ ہو۔ 7۔ یعنی مشرکہ اور زانیہ دونوں سے نکاح معصیت ہے۔ مشرکہ سے جواز نکاح کی تو کوئی صورت ہی نہیں زانیہ سے نکاح قانونی حیثیت سے نافذ ہوجائے گا لیکن عنداللہ معصیت تو بہرحال رہے گا۔
Top