Tafseer-e-Majidi - An-Noor : 63
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا١ؕ قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا١ۚ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَجْعَلُوْا : تم نہ بنا لو دُعَآءَ : بلانا الرَّسُوْلِ : رسول کو بَيْنَكُمْ : اپنے درمیان كَدُعَآءِ : جیسے بلانا بَعْضِكُمْ : اپنے بعض (ایک) بَعْضًا : بعض (دوسرے) کو قَدْ يَعْلَمُ : تحقیق جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ يَتَسَلَّلُوْنَ : چپکے سے کھسک جاتے ہیں مِنْكُمْ : تم میں سے لِوَاذًا : نظر بچا کر فَلْيَحْذَرِ : پس چاہیے کہ وہ ڈریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُخَالِفُوْنَ : خلاف کرتے ہیں عَنْ اَمْرِهٖٓ : اس کے حکم سے اَنْ : کہ تُصِيْبَهُمْ : پہنچے ان پر فِتْنَةٌ : کوئی آفت اَوْ يُصِيْبَهُمْ : یا پہنچے ان کو عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
تم لوگ رسول کے بلانے کو ایسا مت سمجھو جیسا تم میں ایک دوسرے کو بلا لیتا ہے،138۔ اللہ خوب جانتا ہے ان لوگوں کو جو تم میں سے آڑ میں ہو کر کھسک جاتے ہیں،139۔ ان لوگوں کو جو اللہ کے حکم کی مخالفت کررہے ہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر (دنیا میں ہی) کوئی آفت نازل ہوجائے یا انہیں کوئی درد ناک عذاب آپکڑے،140۔
138۔ (کہ جی چاہا آئے نہ جی چاہا نہ آئے۔ بلکہ رسول کا بلانا ایک حاکمانہ حیثیت رکھتا ہے اجابت واجب ہے اور بلااجازت چلا آنا حرام) این لاتقیسوا دعاء ہ (علیہ الصلوۃ والسلام) ایاکم علی دعاء بعضکم بعضا فی حال من الاحوال (روح) قیل ھذا ھم عن الابطاء والتاخیر اذا دعاھم واختارہ المبرد والقفال وھذا القول موافق لمساق الایۃ وانظمھا (بحر) فقہاء نے کہا کہ یہی حکم امام کے لیے بھی ہے، امام المسلمین اگر اب بھی بلائے تو جانا واجب ہوگا اور بلااجازت چلے آنا ناجائز۔ جو امور مباحات میں داخل نہیں امام کے حکم کے بعد واجب ہوجاتے ہیں۔ اور امت کا کسی جگہ جمع ہونا اور جمع رہنا، جب امام کے حکم سے ہوں، واجب ہوجائیں گے البتہ جب کسی اجتماع میں یہ معلوم ہوجائے کہ اب جمع رہنا امام کی طرف سے مامور نہیں تو بلااجازت اٹھ آنے میں بھی مضائقہ نہیں۔ (آیت) ” دعآء الرسول “ کی اس تفسیر میں مصدر کی اضافت فاعل کی جانب ہے۔ لیکن یہ بھی جائز ہے کہ مصدر کی اضافت مفعول کی جانب کی جائے، اس کے اعتبار سے معنی یہ ہوں گے کہ ” اے لوگو رسول کو اس طرح نہ پکارو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے رہتے ہو “۔ مثلا محض یہ محمد ﷺ کہہ کر۔۔۔ منقول یہ تفسیر بھی ہے، لیکن سیاق سے بہت بعید ہے۔ قال مجاھد وقتادۃ ادعوہ بالخضوع والتعظیم نحو یا رسول اللہ یا نبی اللہ ولا تقولوا یا محمد (جصاص) لاتجعلوا تسمیتہ ونداء ہ بینکم کما یسمی بعضکم بعض (کشاف) ذلک نبی من اللہ ان یدعوا رسول اللہ ﷺ بغلظ وجفاء وامرلھم ان یدعوہ بلین و تواضع (ابن جریر) وتعقبہ ابن عطیۃ بان لفظ الایۃ یدفع ھذا المعنی (روح) 139۔ اشارہ انہیں چپکے سے کھسک جانے والے منافقین کی طرف ہے۔ 140۔ اس وعید سے ظاہر ہوگیا کہ امر سے امر ایجابی مراد ہے الایۃ تدل علی ان الامر للایجاب (مدارک) (آیت) ” الذین یخالفون عن امرہ “۔ مراد وہی منافقین ہیں۔ اے الذین یصدون عن امرہ دون ال مومنین وھم المنافقون (مدارک) (آیت) ” عن امرہ “۔ یعنی ان کے دین سے یا ان کی طاعت سے۔ اے عن طاعتہ ودینہ (مدارک)
Top