Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 45
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف رَبِّكَ : اپنا رب كَيْفَ : کیسے مَدَّ الظِّلَّ : دراز کیا سایہ وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہتا لَجَعَلَهٗ : تو اسے بنا دیتا سَاكِنًا : ساکن ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الشَّمْسَ : سورج عَلَيْهِ : اس پر دَلِيْلًا : ایک دلیل
کیا تو نے اپنے پروردگا رپر نظر نہیں کی کہ اس نے سایہ کو کیوں کر پھیلا دیا ہے،51۔ اور اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرایا ہوا رکھتا پھر ہم نے آفتاب کو اس پر ایک علامت مقرر کردیا،52۔
51۔ (اے مخاطب ! ) یہاں مسئلہ یہ بیان ہوا ہے کہ چیزوں کے سایہ کا طلوع آفتاب کے بعد، صبح کے وقت پڑھنا اور آفتاب کے بلند ہونے پر خصوصا دوپہر کے وقت بالکل گھٹ جانا اور پھر بڑھتے بڑھتے شام کو معدوم ہوجانا، یہ سب بہ تخلیق باری تعالیٰ ہے۔ ارادۂ حق کا محتاج اور اس کے ماتحت ہے۔ محض اقتضائے طبیعت سے خود بخود نہیں ہورہا ہے۔ (آیت) ’ الظل “۔ صوفیہ کی اصطلاح میں ممکنات کو واجب الوجود کا ظل (سایہ) کہا گیا ہے۔ 52۔ یعنی آفتاب کے طلوع وبلندی کو ایک ظاہری علامت سایہ کی درازی وکوتاہی پر بنا دیا۔ اہل اشارات نے یہاں یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ سارے عالم کی تخلیق و ربوبیت وفنا حق تعالیٰ کے آفتاب قدرت سے وہی نسبت رکھتی ہے جو سایہ کو نور آفتاب سے ہے۔
Top