Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 111
قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَؕ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لے آئیں لَكَ : تجھ پر وَاتَّبَعَكَ : جبکہ تیری پیروی کی الْاَرْذَلُوْنَ : رذیلوں نے
وہ بولے تو کیا ہم تمہیں ماننے لگیں درآنحالیکہ تمہارے پیرو تو بس رذیل ہی ہیں،73۔
73۔ پیغمبروں، داعیان حق اور مصلحوں پر شروع شروع میں ایمان لانے والے اور ان کی دعوت کو قبول کرنے والے زیادہ تر غیب غربا عوام الناس ہی ہوتے ہیں، کہ ان پر حب جاہ وحب ریاست کی تہیں بہت ہلکی چڑھی ہوتی ہیں۔ حضرت مسیح پر ابتدائی ایمان لانے والے تو تاریخ کی شہادت ہے کہ غریب مچھیرے (ماہی گیر) ہی تھے، اور خود ہمارے رسول کریم ﷺ کی دعوت پر ابتدائی لبیک کہنے والوں میں رؤسا وامراء سے کہیں زیادہ عوام وغرباء تھے (آیت) ’ الارذلون “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی آبادی کے ایک حصہ کو نیچ اور اچھوت قرار دینے کا مرض مشرک جاہلی قوموں میں شروع سے چلا آرہا ہے ! مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ بعض اہل اللہ سے جو لوگ استفادہ اس بناء پر نہیں کرتے کہ ان کی حیثیت ظاہری پست ہے وہ ایسی ہی ذہنیت میں مبتلا ہیں، محققین نے تنبیہ کی ہے کہ مسلمان مسلمان سب برابر وہم سطح ہیں، اور فقہاء نے جو کفاءت کا باب باندھا ہے تو اس کا تعلق محض عرف عام اور دنیا کی انتظا میں مصلحتوں سے ہے۔ نہ کہ قبولیت عند اللہ سے۔ وما ذکرہ الفقہاء فی باب الکفاء ۃ مبنی علی عرف العامۃ لانتظام امر المعاش ونحوہ علی انہ روی عن الامام مالک عدم اعتبار شیء من ذلک اصلا وان المسلمین کیفما کانوا اکفاء بعضھم لبعض (روح)
Top