Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 154
مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا١ۖۚ فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
مَآ اَنْتَ : تم نہیں اِلَّا بَشَرٌ : مگر۔ صرف۔ ایک بشر مِّثْلُنَا : ہم جیسا فَاْتِ : پس لاؤ بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی اِنْ : اگر كُنْتَ : تو مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
تم بس ہمارے ہی جیسے ایک آدمی ہو سو کوئی نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو،86۔
86۔ نشان یعنی خارق عادت، انبیاء کی دعوت کا اصل جوہر خود ان کی تعلیمات رہی ہیں۔ جاہلی قوموں نے بجائے ان تعلیمات کی قدر کرنے کے ہمیشہ مطالبہ خوارق ومعجزات کا کیا ہے۔ اور پیغمبروں کی بشریت ہی کو ان کی رسالت کا مانع اور اس کے منافی قرار دیا ہے۔ مظہر خدا، فرزند خدا، زوج خدا یہ سب کچھ تو وہ سمجھ سکتے تھے لیکن رسول خدا کا تصور ہی گویا انکی دماغی گرفت سے باہر تھا، آج اولیاء اللہ کو بھی، بہت سے جاہل ان کے لوازم طبعی اور حوائج بشری کی بناء پر کم وقعت و حقیر سمجھتے ہیں۔
Top