Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 194
عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ
عَلٰي : پر قَلْبِكَ : تمہارا دل لِتَكُوْنَ : تاکہ تم ہو مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ : ڈر سنانے والوں میں سے
تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں،101۔
101۔ یہاں قرآن مجید سے متعلق سب سے پہلی بات یہ ارشاد ہوئی کہ وہ کسی مخلوق کا نہیں، خود پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے اور دوسری بات یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک تک جبرئیل امین جیسے زبردست محافظ نے پہنچایا ہے۔ جن کے لائے ہوئے پیام پر کسی غلطی وتحریف کا امکان نہیں۔ (آیت) ” نزل بہ “۔ نزل صلہ ب کے بعد انزل کے معنی میں ہے۔ اے انزل علی ان الباء للتعدبۃ (روح) (آیت) ” روح الامین “۔ یعنی امانت دار فرشتہ مراد حضرت جبرئیل ہیں، اور ملت کا اس پر اتفاق ہے۔ وھوجبرئیل (علیہ السلام) قال غیر واحد من السلف۔ ابن عباس ومحمد بن کعب وقتادۃ وعطیۃ العوفی والسدی والضحاک والزھری وابن جریج وھذا ممالانزاع فیہ (ابن کثیر) ان کے وصف امانت کو یہاں نمایاں کرنے کے یہی معنی ہیں کہ انکالا یا ہوا پیام قطعا اور تمامتر محفوظ ہے۔ (آیت) ” بلسان عربی مبین “۔ رسول اللہ ﷺ کی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک یہ کہ آپ نبی عالم تھے دوسرے یہ کہ آپ نبی عرب تھے، یہاں بھی آخری حیثیت مراد ہے اسی لیے زبان عرب کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ قرآن کے عربی زبان میں ہونے پر یہاں اور دوسرے مقامات پر جو زور دیا گیا ہے، اس سے بعض فقہاء نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ غیر عربی قرآن پر یعنی کسی ترجمہ قرآن پر حکم قرآن کا نہیں لگایاجاسکتا۔ (آیت) ” علی قلبک “۔ وحی کا مخاطب اصلی قلب ہی ہوتا ہے۔ اور باقی دوسرے اعضاء قلب کے ماتحت ہوتے ہیں۔ القلب ھو المخاطب فی الحقیقۃ لانہ موقع التمییز والاختیار واما سائر الاعجاء فمسخرۃ لہ والدلیل علی القران والحدیث ولمعقول (کبیر) محققین سے منقول ہے کہ نبی کے پاس قبول وحی کے لیے ایک قلب بھی مخصوص ہوتا ہے اور ایک مخصوص سامعہ وباصرہ بھی۔
Top