Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 20
قَالَ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَؕ
قَالَ : موسیٰ نے کہا فَعَلْتُهَآ : میں وہ کیا تھا اِذًا : جب وَّاَنَا : اور میں مِنَ : سے الضَّآلِّيْنَ : راہ سے بیخبر (جمع)
موسیٰ (علیہ السلام) نے) کہا (واقعی) میں وہ حرکت کر بیٹھا تھا اور مجھ سے (نادانستہ) غلطی ہوگئی تھی،19۔
19۔ (سو حققیۃ قصور وار تو میں اس وقت بھی نہ تھا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جرم قتل عمد سے تبری ضالین میں آجاتی ہے۔ ضال کے معنی ہی ہیں انجان کوئی حرکت کر بیٹھنے والا، تنبیہ ان ذلک منہ سھو (راغب) المراد بذلک الذاھلین من معرفۃ مایؤول الیہ من القتل (کبیر) المراد انی فعلت ذلک الفعل وانا ذاھل من کونہ مھلکا وکان منی فی حکم السھو (کبیر) عن قتادۃ انہ فعل ذلک جاھلا بہ غیر متعمدایاہ (روح) ضلال کا لفظ ارادی وغیر ارادی، بڑی اور چھوٹی ہر غلطی کے لیے عام ہے۔ یقال الضلال بکل عدول عن المنھج عمدا کان او سھوا یسیرا کان اوکثیر ا (راغب) اور اسی لیے اس کا اطلاق ضلال انبیاء وضلال کفار دونوں پر ہوتا ہے حالانکہ اس ضلال اور اس ضلال کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے صح ان یستعمل لفظ الضلال ممن یکون منہ خطا ما ولذلک نسب الضلال الی الانبیاء والی الکفار وان کان بین الضلالین بون بعید (راغب)
Top