Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 223
یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَؕ
يُّلْقُوْنَ : ڈالدیتے ہیں السَّمْعَ : سنی سنائی بات وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان میں اکثر كٰذِبُوْنَ : جھوٹے ہیں
اور جو (ان کی طرف) کان لگائے رکھتے ہوں، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہی ہوتے ہیں،119۔
119۔ (اپنے دعوائے کہانت وغیب دانی میں) قرآن مجید خود مشرکوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ بات بک ڈالنے سے پیشتر یہ بھی تو سوچ لیاکرو، کہ کچھ لگتی ہوئی بھی ہے۔ شاگرد و استاد میں کچھ تو مناسبت ہونا چاہیے۔ شیطان سے تعلق رکھنے والے کون لوگ ہوتے ہیں ؟ شیطان سے فیض پانے والے کس سیرت کس اخلاق کے ہوتے ہیں ؟ شیطان کے تربیت یافتہ تو وہی ہوتے ہیں جو جھوٹے، لپاٹیے، بدکردار، گناہوں کی گندگی میں آلودہ ہوتے ہیں۔ یعنی ٹھیک ان پاکیزہ خو، فرشتہ صفت اصحاب نبوی کے برعکس، جن کے اوصاف ابھی سورة الفرقان میں بیان ہوچکے ہیں۔ ایسے متقیوں پاکبازوں کے سردار کو بھلا شیطان کے سایہ سے بھی کوئی مناسبت ہوسکتی ہے ؟ (آیت) ” اکثرھم کذبون “۔ میں اکثر سے مراد کل لی گئی ہے۔ یعنی یہ سب کے سب جھوٹے ہیں۔ وقد فسر الاکثر بالکل (بیضاوی) دوسرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ یہ لوگ کثرت سے جھوٹ بولنے والے ہیں، گویا کثرت کا تعلق تعداد سے نہیں، ان کے اقوال سے ہے۔ والا ظھران الاکثربۃ باعتبار اقوالھم (بیضاوی) سب سے زیادہ دل نشین معنی وہ ہیں جو زمخشری نے کیے ہیں۔ یعنی ان میں سے اکثر خود دعوی کہانت ہی میں جھوٹے ہیں، شیاطین سے جو خبریں پانابیان کرتے ہیں، خود اس دعوے میں یہ سچے۔ و اکثر الافاکین کاذبون یفترون علی الشیطین مالم یوحوالیھم (کشاف) کاذبون فی مایقولون ویخبرون (ابن جریر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں یہ بڑا اشارہ ہے کہ شیطان طالب صادق و متقی کے اندر ایساتصرف نہیں کرسکتا، جس سے اس کے دین کو ضرر پہنچے۔
Top