Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 82
وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ
وَالَّذِيْٓ : اور وہ جس سے اَطْمَعُ : میں امید رکھتا ہوں اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ : کہ مجھے بخش دے گا خَطِيْٓئَتِي : میری خطائیں يَوْمَ الدِّيْنِ : بدلہ کے دن
اور وہی جس سے میں آس لگائے ہوں کہ وہ میری غلط کاری کو قیامت کے دن معاف کردے گا،61۔
61۔ وہی الہ المعاد بھی وہی الہ المعاش بھی، وہی موت وفنا طاری کرنے والا بھی اور وہی جزا وسزا کے لیے دوبارہ جلانے والا بھی، یہ نہیں کہ افناوا اہلاک کا دیوتا کوئی الگ ہو، اور حشر میں داوری کے وقت سامنا کسی اور کا کرنا پڑے، جیسا کہ عموما مشرک ونیم مشرک قوموں نے فرض کیا ہے۔ اور پھر مغفرت کی امیدیں بھی تمامتر اسی خدائے واحد کی ذات سے ہیں، نہ کہ کسی اور سے۔ مشرک اور جاہلی قوموں کو شرک کی ٹھوکریں جب جب لگی ہیں، انہیں صفات ہی سے متعلق لگی ہیں۔ (آیت) ” اطمع ....... الدین “۔ الفاظ آیت کے اندر رعایت ادب کس درجہ موجود ہے ! اول تو پیغمبر صاف صاف اپنے لیے خطیءۃ کا وجود تسلیم کرتے ہیں، محض اجتہادی غلطی کہہ کر نہیں گزر جاتے اور پھر اپنی مغفوریت کو بھی جزم کے ساتھ نہیں بیان کرتے، اس کی صرف امید یا آس لگاتے ہیں۔ کہاں پیغمبر جلیل حضرت خلیل (علیہ السلام) کا یہ ادب ودرجہ تواضع۔ اور کہاں صوفیہ خامکار کے یہ دعوے کہ ہم اپنے مریدوں میں سے جس کو چاہیں گے چھڑا لیں گے !
Top