Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 19
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ
فَتَبَسَّمَ : تو وہ مسکرایا ضَاحِكًا : ہنستے ہوئے مِّنْ : سے قَوْلِهَا : اس کی بات وَقَالَ : اور کہا رَبِّ : اے میرے رب اَوْزِعْنِيْٓ : مجھے توفیق دے اَنْ اَشْكُرَ : کہ میں شکر ادا کروں نِعْمَتَكَ : تیری نعمت الَّتِيْٓ : وہ جو اَنْعَمْتَ : تونے انعام فرمائی عَلَيَّ : مجھ پر وَعَلٰي : اور پر وَالِدَيَّ : میرے ماں باپ وَاَنْ : اور یہ کہ اَعْمَلَ صَالِحًا : میں نیک کام کروں تَرْضٰىهُ : تو وہ پسند کرے وَاَدْخِلْنِيْ : اور مجھے داخل فرمائے بِرَحْمَتِكَ : اپنی رحمت سے فِيْ : میں عِبَادِكَ : اپنے بندے الصّٰلِحِيْنَ : نیک (جمع)
سلیمان) اس بات پر مسکرا ہنس پڑے،23۔ اور کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھی اس پر مداومت دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کیا کروں، جو تو نے مجھے اور میرے ماں باپ کو عطا کی ہیں اور اس پر بھی کہ میں نیک کام کیا کروں جس سے تو راضی ہو،24۔ اور مجھے اپنی رحمت سے داخل رکھ اپنے نیک بندوں میں،25۔
23۔ (کہ اللہ رے احتیاط ودور اندیشی ! ) (آیت) ” ضاحکا “۔ مفسر تھانوی (رح) نے لکھا ہے کہ اس سے ثبوت ضحک کا انبیاء (علیہم السلام) سے ملتا ہے، اور حدیث نبوی میں جو اس کی نفی آئی ہے مراد اس سے نفی عادت ضحک کی ہے نہ کہ نفی بالکلیہ۔ (آیت) ” تبسم ضاحکا “۔ ترکیب سے بعض اہل تفسیر نے بات یہ پیدا کی ہے کہ تبسم تو آپ (علیہ السلام) نے اپنی عادت ومعمول کے مطابق کیا، پھر وہ تبسم اضطرارا ضحک کے درجہ تک پہنچ گیا۔ 24۔ یعنی عمل مقبول عنایت ہو (آیت) ” نعمتک ....... والدی “۔ نعمتوں سے مراد نعمت ایمان ونعمت علم ہیں۔ اور جہاں تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) وحضرت داؤد (علیہ السلام) کا تعلق ہے نعمت نبوت بھی۔ جانوروں کی گفتگو سمجھ لینا ایک معجزہ اور نعمت عظیم ہے۔ حضرات انبیاء اپنے ان کمالات پر اترا نہیں جاتے بلکہ انہیں ایک نعمت سے دوسری نعمتوں کا استحضار ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ یہاں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ہوا۔ قرآن مجید کی یہ ساری صراحتیں تو ریت موجودہ کے ان بیانات کی تردید کررہی ہیں۔ جن میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ایمان اور اخلاق کو مجروح کیا گیا ہے۔ 25۔ (اور کبھی بھی اس نعمت قرب کو بعد سے تبدیل نہ کر) (آیت) ” رحمتک “۔ رحمت سے مراد رحمت خاصہ ہے اور (آیت) ” الصلحین “۔ سے مراد اعلی درجہ کے نیک بندے یعنی انبیاء ہیں۔
Top