Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 31
اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَ اْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
اَلَّا تَعْلُوْا : یہ کہ تم سرکشی نہ کرو عَلَيَّ : مجھ پر وَاْتُوْنِيْ : اور میرے پاس آؤ مُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار ہو کر
تو لوگ میرے مقابلہ میں بڑائی مت کرو اور میرے پاس مطیع ہو کر چلے آؤ،37۔
37۔ خط کے مخاطب ملکہ کے علاوہ اعیان سلطنت بھی ہیں۔ اور تبعا جملہ اہل سبا۔ اسی لئے صیغہ جمع مخاطب کا ہے۔ (آیت) ” اتونی مسلمین “۔ سے مراد جسمانی حاضری نہیں۔ محض دعوت اسلام وا طاعت مقصود ہے المراد من المسلم اما المنقاد او ال مومن (کبیر) اے مومنین اومنقادین (بیضاوی) یہ ضرور نہیں کہ خط کی عبارت بجنسہ یہی ہو۔ قرینہ روایت بالمعنی کا ہے۔ یہود کے مقدس نوشتہ تالمود میں جو عبارت مکتوب دی ہوئی ہے۔ اس کے لیے ملاحظۃ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ مضمون مکتوب کے اس ایجاز سے امام رازی (رح) نے یہ استنباط کیا ہے کہ کلام انبیاء میں طوالت نہیں ہوتی، بلکہ نفس مطلب پر اکتفا ہوتا ہے۔ الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام لایطیلون بل یقتصرون علی المقصود وھذا الکتاب مشتمل علی تمام المقصود (کبیر)
Top