Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 80
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تُسْمِعُ : تم نہیں سنا سکتے الْمَوْتٰى : مردوں کو وَلَاتُسْمِعُ : اور تم نہیں سنا سکتے الصُّمَّ : بہروں کو الدُّعَآءَ : پکار اِذَا وَلَّوْا : جب وہ مڑ جائیں مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے،87۔ اور نہ بہروں کو (اپنی) پکار سناسکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں،87۔ اور نہ بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں،88۔
87۔ (کوئی ایسی آواز و کلام جواب ان کے حق میں نافع ہو) مطلب یہ ہے کہ یہ معاندین تو مردوں کی طرح ہیں، ان سے توقع ہی فہم وہدایت کی بیکار ہے۔ انما شبھوا بالموتی لعدم انتفاعھم باستماع مایتلی علیھم کما شبھوا بالصم (بیضاوی) بعض علماء نے آیت سے یہ مستنبط کیا ہے کہ مردے مطلقا کلام نہیں سن سکتے۔ حالانکہ یہاں مقصود صرف تشبیہ ہے، اور اس کی بناء پر عرف وظاہر پر ہے۔ کوئی مسئلہ فقہی بیان نہیں ہورہا ہے اور پھر کافروں سے سمع وبصر کی نفی تو اور بھی متعدد مقامات پر قرآن میں آئی ہے۔ جس طرح وہاں مراد معرفت وادراک لی گئی ہے یہاں بھی نفی سمع نفی قبول ہی پر محمول ہوگی۔ اس کے علاوہ موتی کا اطلاق تو جسد مردہ پر ہوتا ہے۔ روح کے سننے نفی تو اس سے بھی نہیں ہوتی۔ اور بعض محققین نے یہ نکتہ بھی لکھا ہے کہ (آیت) ” تسمع “۔ باب افعال سے ہے۔ یعنی تم ان میں قوت سماع نہیں پیدا کرسکتے اور سماع عادی جو نام ہے تصادم صوت وسامعہ کا وہ ظاہر ہے کہ مردوں میں مفقود ہے۔ 88۔ (اور سننا ہی نہ چاہیں) مقصود اس تشبیہ سے بھی اس کا اظہار ہے کہ جب کوئی نفع حاصل کرنے کا ارادہ ہی نہ کرے، بلکہ اس کے برعکس کا ارادہ کرلے تو کوئی اسے نفع پہنچا سکتا ہی نہیں۔ فان اسماعھم فی ھذہ الحالۃ ابعد (بیضاوی) یہ سنانے اور نفع پہنچانے کی نفی جب حضرات انبیاء سے کی جارہی ہے تو کسی شیخ یا مرشد غریب کے اختیار میں کب ہدایت کا دل میں اتار دینا ہے !
Top