Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 88
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ
وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْجِبَالَ : پہاڑ (جمع) تَحْسَبُهَا : تو خیال کرتا ہے انہیں جَامِدَةً : جما ہوا وَّهِىَ : اور وہ تَمُرُّ : چلیں گے مَرَّ السَّحَابِ : بادلوں کی طرح چلنا صُنْعَ اللّٰهِ : اللہ کی کاری گری الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَتْقَنَ : خوبی سے بنایا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّهٗ : بیشک وہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور تو پہاڑوں کو دیکھ رہا ہے اور ان کے لئے خیال کررہا ہے کہ وہ جنبش نہ کریں گے،97۔ درآنحالیکہ وہ بادلوں کی طرح اڑے پھریں گے،98۔ یہ کاریگریں اللہ ہی کی ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنا رکھا ہے،99۔ بیشک اسے تمہارے افعال کی پوری طرح خبر ہے،100۔
97۔ (اور بیشک ظاہری نظر میں وہ ہیں بھی ایسے ہی بھاری بھر کم) 98۔ یعنی نفخ صور جس طرح جانداروں پر اس قدر مؤثر ہوگا، بےجان چیزوں کو بھی متاثر اور درہم برہم کیے بغیر نہ رہے گا ان کے اجزاء تحلیل ہوجائیں گے، اور ان میں تخلخل واقع ہو کر رہے گا یہاں تک کہ اڑے اڑے پھرنے لگیں گے، حال کے ایک ہندی مفسر قرآن نے (آیت) ” تمر “۔ کے صیغہ مضارع کو بجائے مستقبل کے صرف حال کے معنی میں لے کر آیت سے حرکت ارض پر استدلال کیا ہے، اور آیت کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ پہاڑ جو بظاہر بالکل جمے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ دراصل بادل کی سی تیزی کے ساتھ رواں ہیں۔ یہ معنی اگرچہ سیاق قرآنی سے بہت دور ہیں تاہم تفسیر بالرائے نہیں کہے جاسکتے اور جواز کی گنجائش کسی نہ کسی حد تک رکھتے ہیں۔ 99۔ ہر شے کی مضبوطی اس کے مناسب حال ہی ہونا چاہیے جس وقت تک ان پہاڑوں کا قیام وبقا منظور ہے اپنی جگہ پر وہ کیسے جمے ہوئے رہتے ہیں اور جب حکمت کاملہ کو ان کا انہدام ہی منظور ہوجاتا ہے تو اب کاریگری کا عین تقاضا یہی ہے کہ ان کے اجزا میں انتہائی نرمی اور ڈھیلا پن پیدا ہوجائے۔ اتقن اے احکم خلقہ وسواہ علی ماینبغی (بیضاوی) (آیت) ” صنع اللہ “۔ میں (آیت) ” صنع “۔ مصدر مؤکد ہے جیسے وعداللہ اور صبغۃ اللہ میں ان مؤکدہ محذوف ہے۔ (کشاف) 100۔ اور مجازاۃ ومکافاۃ کی شرط اول یہی علم محیط وکامل ہے)
Top