Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 93
وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَا١ؕ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَقُلِ : اور فرما دیں الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے سَيُرِيْكُمْ : وہ جلد دکھا دے گا تمہیں اٰيٰتِهٖ : اپنی نشانیاں فَتَعْرِفُوْنَهَا : پس تم پہچان لوگے انہیں وَمَا : اور نہیں رَبُّكَ : تمہارا رب بِغَافِلٍ : غافل (بےخبر) عَمَّا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور آپ کہہ دیجیے کہ ساری تعریف اللہ ہی کے لئے ہے،105۔ وہ تم کو اپنی نشانیاں عنقریب دکھائے گا، سو تم انہیں پہچانو گے،106۔ اور آپ کا پروردگار ان کاموں سے بیخبر نہیں جو تم (سب) کررہے ہو،107۔
105۔ (اور قدرت، ملک، علم، حکمت، سارے صفات کمال اسی کے لیے ثابت ہیں، سو اس کے علم کے موافق جب حکمت کا مقتضا ہوگا وہ اپنی قدرت سے اپنی مخلوق میں قیامت واقع کردے گا) اہل اشارات نے کہا کہ سورة کے خاتمہ پر (آیت) ” الحمد “ لانے میں تعلیم یہ ہے کہ مسلمان کو بھی اپنے سارے احوال ومور کا خاتمہ اللہ کی حمد وثنا ہی پر کرنا چاہیے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ واجب ہے کہ قبول کو منسوب اللہ تعالیٰ کی جانب کرے، اپنے مجاہدہ وعمل کی جانب نہ کرے۔ 106۔ (اور اب انکار کررہے ہو) (آیت) ” ایتہ “۔ سے مراد واقعات واہوال قیامت ہیں۔ بعض نے مراد فتوحات بدر وغیرہ بھی لی ہیں۔ ایاتہ القاھرۃ فی الدنیا او فی الاخرۃ (بیضاوی) قال الحسن وذلک فی الاخرۃ وقال الکلبی فی الدنیا (بحر) مقصود بہر صورت یہ ہے کہ جب عذاب الہی مشاہدہ کرلو گے جب تو میری بات کا یقین کرو گے اور جب میری نصیحتوں کی قدر ہوگی، یریکم ربکم ایات عذابہ وسخطہ فتعرفون بھا حقیقۃ نصحی کان لکم ویتبین صدق ما دعوتکم الیہ من الرشاد (ابن جریر) 107۔ (سو سب کو جزا وسزا بھی اس کے مطابق ملے گی) عاصیوں نافرمانوں کے حق میں اس کا تنبیہ ہونا تو ظاہرہی ہے لیکن ارباب باطن نے اس میں اہل ذوق کے لیے بھی بڑی بشارت سمجھی ہے کہ اہل سوز کی آہ وزاری محبوب حقیقی سے ذرا بھی مخفی نہیں۔ بلکہ ان کی ساری بےقراری اس پر آئینہ ہے۔
Top