Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 13
فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
فَرَدَدْنٰهُ : تو ہم نے لوٹا دیا اس کو اِلٰٓى اُمِّهٖ : اس کی ماں کی طرف كَيْ تَقَرَّ : تاکہ ٹھنڈی رہے عَيْنُهَا : اس کی آنکھ وَلَا تَحْزَنَ : اور وہ غمگین نہ ہو وَلِتَعْلَمَ : اور تاکہ جان لے اَنَّ : کہ وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں سے بیشتر لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے
غرض ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی والدہ کے پاس واپس پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور تاکہ غم میں نہ رہیں اور تاکہ اس بات کو جان لیں،14۔ کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے، البتہ اکثر لوگ اس کا یقین نہیں رکھتے،15۔
14۔ (مشاہدہ ومعائنہ کے مرتبہ میں) (آیت) ” فرددنہ “۔ یعنی واپس پہنچا دیا، اپنے وعدہ کے مطابق۔ (آیت) ” تقرعینھا “۔ یعنی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اپنی اولاد کو دیکھ کر۔ اور یہ جو بعض روایات میں آیا ہے کہ والدہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس ارضاع کی اجرت بھی لی تھی تو اپنے کو اجنبی اور انجان ظاہر کرنے کے بعد بھی بالکل قرین قیاس یہی ہے۔ رہا اس پر یہ فقہی شبہ کہ واجب پر تو اجرت جائز ہی نہیں۔ سو اس کے متعدد جوابات ممکن ہیں۔ اول تو یہ کیا ضرور ہے کہ فقہ اسرائیلی میں بھی یہ جزئیہ موجود ہو۔ اور پھر حربی کا مال اس کی رضا مندی سے لینا، خواہ کسی طریق سے بھی ہو، ہماری شریعت میں بھی جائز ہے۔ ان کے علاوہ یہاں ضرورت ومصلحت کا تقاضا بھی یہی تھا۔ 15۔ تعریض ہے کافروں پر کہ ان بدبختوں کو وعدۂ الہی پر بھی اطمینان نہیں ہوتا۔ ذرا اسی دیر لگی، یا درمیان میں کوئی پیچ پڑا اور یہ بدعقیدہ ہوجاتے ہیں۔
Top