Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 24
فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ
فَسَقٰى : تو اس نے پانی پلایا لَهُمَا : ان کے لیے ثُمَّ تَوَلّيٰٓ : پھر وہ پھر آیا اِلَى الظِّلِّ : سایہ کی طرف فَقَالَ : پھر عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں لِمَآ : اس کا جو اَنْزَلْتَ : تو اتارے اِلَيَّ : میری طرف مِنْ خَيْرٍ : کوئی بھلائی (نعمت) فَقِيْرٌ : محتاج
پس (موسی (علیہ السلام) نے) ان کے لئے پانی پلادیا پھر ہٹ کر سایہ میں آگئے اور عرض کیا کہ اے میرے پروردگار تو جو نعمت بھی مجھے دے دے میں اس کا حاجت مند ہوں،34۔
34۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا طویل سفر کے بعد بھوکا پیاسا، تھکا ماندہ ہونا بالکل قدرتی تھا۔ آپ سایہ میں آکر بیٹھ گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے رزق کے لیے دعا کی، انس بن مالک ؓ کی حدیث مرفوع میں آتا ہے۔ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حاجت صرف بقدر ایک کف دست کے بیان فرمائی تھی، مرشد تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ تفسیر اس پر دلالت کرتی ہے کہ کاملین کی شان اپنی ہر حاجت قلیل وکثیر کا حق تعالیٰ کے سامنے ظاہر کرنا ہے۔ بخلاف مدعیان زہد کے جو حق تعالیٰ کی نعمتوں سے استغناء بلکہ نفرت ظاہر کیا کرتے ہیں۔ (آیت) ” فسقی لھما “۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے ان عورتوں کی خاطر ان کے جانوروں کو پانی بھر کر پلا دیا۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس میں دلالت ہے اس پر کہ ماملین کو خدمت خلق سے عار نہیں ہوتی۔ توریت میں ہے :۔ وہ آئیں اور پانی نکالنے لگیں اور کٹھروں کو بھراتا کہ اپنے باپ کے گلے کو پانی پلادیں۔ تب گڈریوں نے آکے انہیں ہانکا۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر ان لڑکیوں کی مدد کی اور ان کے گلے کو پانی پلایا “۔ (خروج۔ 2: 16، 17) (آیت) ” تولی الی الظل “ یہاں یہ جتا دیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دھوپ کے وقت سایہ کے بھی محتاج تھے۔۔ کمال یہ ہرگز نہیں کہ کوئی بشر لوازم بشریت مثلا بھوک، پیاس، گرمی، سردی کے احساس سے بےنیاز ہوجائے۔ (آیت) ” رب ..... فقیر “ کامل سے کامل بندے یہاں تک کہ انبیاء اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے مستغنی نہیں ہوتے۔ بھوک کے وقت للک کر اس کے لیے دعائیں، آرزوئیں کرتے ہیں۔
Top