Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 31
وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ١ؕ یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ١۫ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ
وَاَنْ : اور یہ کہ اَلْقِ : ڈالو عَصَاكَ : اپنا عصا فَلَمَّا رَاٰهَا : پھر جب اس نے اسے دیکھا تَهْتَزُّ : لہراتے ہوئے كَاَنَّهَا : گویا کہ وہ جَآنٌّ : سانپ وَّلّٰى : وہ لوٹا مُدْبِرًا : پیٹھ پھیر کر وَّ : اور َمْ يُعَقِّبْ : پیچھے مڑ کر نہ دیکھا يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اَقْبِلْ : آگے آ وَلَا تَخَفْ : اور تو ڈر نہیں اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الْاٰمِنِيْنَ : امن پانے والے
اور یہ بھی کہ تم اپنا عصا ڈال دو پھر جب انہوں نے اسے لہراتا ہوا دیکھا جیسا پتلا (تیز) سانپ تو وہ پشت پھیر کر بھاگے اور پیچھے پھر کر بھی نہ دیکھا (حکم ہوا) اے موسیٰ آگے آؤ اور ڈرو مت۔ تم (ہر طرح) امن میں ہو،44۔
44۔ (اور یہ تو تمہارا معجزہ ہے) (آیت) ” الوادالایمن “۔ میدان کی داہنی جانب۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی داہنی جانب تھی۔ سارے واقعہ پر مفصل حاشیے سورة طہ پ 16 میں گزر چکے، نیز سورة النمل پ 19، سورة الاعراف پ 8 میں۔ (آیت) ” انی انا اللہ “۔ کے ساتھ صفت (آیت) ” رب العلمین “۔ کا اضافہ اس حقیقت کو اور مؤکد ومصرح کررہا ہے کہ جو سارے عالم کا مالک وحاکم ہے وہ کسی محدود جگہ کے اندر گھر کیونکر سکتا ہے ؟۔ (آیت) ” ولی مدبرا ولم یعقب “۔ سانپ، شیر، وغیرہ زہریلے اور خطرناک جانوروں سے ڈرنا بالکل ایک امر طبعی ہے، اور بڑے سے بڑے کمالات ولایت، یہاں تک کہ نبوت کے بھی منافی نہیں۔ اور حضرت کلیم اللہ کا یہ خوف تمامتر خوف طبعی ہی تھا۔ آٰت سے ضمنا اس حقیقت پر بھی روشنی پڑجاتی ہے کہ معجزہ تمامتر ایک فعل خداوندی ہوتا ہے، پیغمبر اس کا صرف واسطہ ہوتا ہے پیغمبر کو اس معجزہ کی تکوین میں مطلق دخل نہیں ہوتا، ورنہ کم از کم اپنے معجزہ سے تو حضرت کلیم اللہ (علیہ السلام) خوف نہ کھاتے۔
Top