Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 38
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ١ۚ فَاَوْقِدْ لِیْ یٰهَامٰنُ عَلَى الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰى١ۙ وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون نے يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ : اے سردارو مَا عَلِمْتُ : نہیں جانتا میں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرِيْ : اپنے سوا فَاَوْقِدْ لِيْ : پس آگ جلا میرے لیے يٰهَامٰنُ : اے ہامان عَلَي الطِّيْنِ : مٹی پر فَاجْعَلْ لِّيْ : پھر میرے لیے بنا (تیار کر) صَرْحًا : ایک بلند محل لَّعَلِّيْٓ : تاکہ میں اَطَّلِعُ : میں جھانکوں اِلٰٓى : طرف اِلٰهِ : معبود مُوْسٰي : موسیٰ وَاِنِّىْ : اور بیشک میں لَاَظُنُّهٗ : البتہ سمجھا ہوں اسے مِنَ : سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اور فرعون نے کہا اے سردارو، مجھ کو تو اپنے سوا کوئی تمہارا معبود معلوم نہیں،51۔ تو اے ہامان،52۔ میرے لئے مٹی کو آگ میں پکا پھر میرے واسطے ایک بلند عمارت بناؤ تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھوں اور میں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں،53۔
51۔ میں ہی تمہارا اصلی اور قدیمی دیوتا ہوں، میری ہی پوجا تمہارے باپ دادا ہمیشہ سے کرتے چلے آتے ہیں تو اب یہ نیا نام کس خدا کا سننے میں آرہا ہے۔ فراعنہ مصر کی نسل مصریوں کے عقیدہ میں خدائی اوتار تھی اور بادشاہ سب سے بڑے دیوتا سورج کا زندہ نمائندہ ہوتا تھا۔ ملاحظہ ہو سورة الشعراء (پ 19) میں آیہ (آیت) ” لئن اتخذت الھا غیری “۔ پر حاشیہ۔ نیز انگریزی تفسیر القرآن۔ 52۔ ھامان پر حاشیہ ابھی اوپر گزر چکا نمبر 4 یہاں بھی سیاق کلام سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ ہامان کسی اعلی ترین عہدہ دار کا سرکاری لقب ہے۔ 53۔ حق تعالیٰ گویا یہاں اور اور کہیں بھی نہیں ہے۔ بلکہ مجسم ہو کر آسمان پر بیٹھا ہوا ہے، اور اس تک رسائی کسی بڑی اونچی سیڑھی سے چڑھ کر یا فضا میں اڑ کر ممکن ہے۔ یہ عقیدہ آج بھی بہت سی قوموں کے عوام ہی میں نہیں، خواص میں بھی شائع ہے۔ چناچہ ابھی چند ہی سال ہوئے سوویٹ روس سے اطلاع آئی تھی کہ دو ملحد ہوابازوں نے اپنا بیان شائع کیا ہے کہ ہم اتنا اونچا اڑآئے، ہمیں تو کہیں خدا نظر نہیں آیا۔ مصری خاص طور پر اسی قسم کے شرک میں مبتلا تھے۔ فرعون نے انہیں عقائد وخیالات کے ماتحت ایک ان دیکھے خدا کے وجود کو باطل ثابت کرنے بلکہ اس کا مضحکہ کرنے کو یہ اپچ کرلی۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ (آیت) ” اوقدلی ...... علی الطین “۔ قرآن یہاں فرعون کی زبان سے یہ بھی کہلا سکتا تھا کہ ” ہامان “ میرے لیے پتھر کی عمارت تیار کر “۔ یا اینٹ پتھر وغیرہ کسی چیز کی تصریح ہی نہ کرتا۔ لیکن نہیں۔ قرآن کو تو علم صحیح کی بیشمار مثالوں میں سے ایک اور مثال کرنی اور اپنے دعوی اعجاز پر ایک اور دلیل قائم کرنی تھی۔ مصری قوم اینٹوں ہی کے کام کے لیے مشہور تھی یہاں تک کہ اس کی مشہور شاہی عمارتیں بھی پتھر کی نہیں، اینٹ ہی کی ہیں۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔
Top