Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 7
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِ١ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ١ۚ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے الہام کیا اِلٰٓى : طرف۔ کو اُمِّ مُوْسٰٓى : موسیٰ کو اَنْ اَرْضِعِيْهِ : کہ تو دودھ پلاتی رہ اسے فَاِذَا : پھر جب خِفْتِ عَلَيْهِ : تو اس پر ڈرے فَاَلْقِيْهِ : تو ڈالدے اسے فِي الْيَمِّ : دریا میں وَ : اور لَا تَخَافِيْ : نہ ڈر وَلَا تَحْزَنِيْ : اور نہ غم کھا اِنَّا : بیشک ہم رَآدُّوْهُ : اسے لوٹا دیں گے اِلَيْكِ : تیری طرف وَجَاعِلُوْهُ : اور اسے بنادیں گے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں (جمع)
اور ہم نے موسیٰ کی والدہ کو الہام کیا کہ تم انہیں دودھ پلاؤ، پھر جب تم کو انکی نسبت اندیشہ ہو،5۔ تو تم انہیں دریا میں ڈال دو اور نہ اندیشہ کرو اور نہ غم کرو ہم ضرور ان کو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور انہیں پیغمبر بنا دیں گے،6۔
5۔ بنی اسرائیل کی اولاد مذکور تو چن چن کر قتل کی ہی جارہی تھی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کو بھی قدرۃ یہ فکر پیدا ہوئی کہ اب ان کی بھی تلاش ہوگی، اس وقت ان کے دل میں بات غیب سے ڈال دی گئی، (آیت) ” اوحینا “۔ وحی یہاں الہام یا القاء کے معنی میں ہے۔ اے القینا فی قلبھا (ابن قتیبہ) الوحی کل ما دللت علیہ من کلام او کتاب او اشارۃ اور سالۃ (ابن قتیبہ) اس اصطلاحی معنی میں نہیں جو انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے، اس وحی کا ذکر سورة طہ پ 16 میں گزر چکا ہے۔ بہرحال نہ یہ وحی، وحی رسالت تھی اور نہ والدۂ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نبی یا رسول تھیں ولیس ھذا وحی رسالۃ ولا تکونھی رسولا (مدارک) توریت میں ہے :۔ ” وہ عورت حاملہ ہوئی اور بیٹا جنی اور اس نے اسے خوبصورت دیکھ کے تین مہینے تک چھپا رکھا اور جب آگے کو نہ چھپا سکی تو اس نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکر ا بنایا اور اس پر لاسا اور رال لگایا اور لڑکے کو اس میں رکھا اور اس نے اسے دریا کے کنارہ پر جھاڑ میں رکھ دیا۔ “ (خروج۔ 2: 1۔ 3) 6۔ یعنی سردست تو یہ کرو کہ ان کی رضاعت بدستور کرتی رہو۔ پھر جب دیکھو کہ افشاء راز ہوا جاتا ہے تو ایک صندوق میں انہیں بند کرکے دریائے نیل میں ڈال دو ۔ نہ ان کے ڈوب جانے کا اندیشہ کرو نہ ان کی مفارقت کا غم کرو، ہم ایسا انتظام کیے دیتے ہیں کہ عنقریب ہی یہ پھر تمہارے پاس پہنچ جائیں اور پھر ایک خاص وقت پر انہیں پیغمبری عنایت کردیں گے۔ (آیت) ” لاتخافی ولا تحزنی “۔ جس خوف وحزن سے یہاں ممانعت ہے وہ عقلی واختیاری تھا، اس خوف وحزن کے علاوہ جو طبعی اور غیر اختیاری ہوتا ہے۔ (آیت) ” فی الیم “ یم سے یہاں مراد مصر کا مشہور اور لمبا چوڑا دریائے نیل ہے۔ جو اسرائیلیوں کے محلہ سے ہوتا ہوا عین شاہی محل کے دامن سے گزرا تھا۔
Top