Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 83
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
تِلْكَ : یہ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ : آخرت کا گھر نَجْعَلُهَا : ہم کرتے ہیں اسے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو لَا يُرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے عُلُوًّا : برتری فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا فَسَادًا : نہ فساد وَالْعَاقِبَةُ : اور انجام (نیک) لِلْمُتَّقِيْنَ : اور انجام (نیک)
یہ عالم آخرت تو ہم انہیں لوگوں کے لئے خاص کردیتے ہیں جو زمین پر نہ بڑا بننا چاہتے ہیں نہ فساد کرنا اور انجام (نیک) تو متقیوں ہی کا (حصہ) ہے،110۔
110۔ (آیت) ” علوا “۔ علو سے مراد معصیت نفسانی لی گئی ہے۔ اور فساد سے گناہ متعدی اور دوسرے معانی بھی منقول ہیں۔ علو اے بغیا (ابن جریر) وظلما (الضحاک) وکبیر (مدارک) فسادا اے عملا بالمعاصی (مدارک) ” یہ علو اور فساد اگر حد کفر تک ہے تو مطلقا مانع حصول ثواب آخرت ہے اور اگر حد کفر تک نہیں تو مانع حصول بھی معصیت ہے گو معصیت پر دسترس نہ ہو “۔ (تھانوی (رح) آیت قرآن کی ان آیات میں سے ہے جن میں چند مختصر الفاظ کے اندر گہرے اصول اور پورے پورے قانون بیان کردیئے گئے ہیں اور اس قابل ہے کہ ہر پڑھا لکھا شٰخص اپنے اپنے کمرہ میں اس کا کتبہ لگا کر ٹانگ دے کہ ہر وقت پیش نظر رہے۔ خلیفہ عمر بن عبد العزیز اموی جنہیں پانچواں خلفیہ راشد سمجھا گیا ہے۔ ان کی بابت تاریخوں میں درج ہے کہ نزع کے وقت یہی آیت زبان پر تھی۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آخرت سے جس طرح عمل بالمعاصی مانع ہے اور فساد سے یہی مراد ہے اس طرح کبیر بھی اس سے مانع ہے اور علو سے یہی مراد ہے۔ اسی لیے اہل طریق ترک معاصی ہی کا سا اہتمام ازالہ تکبر کا بھی کرتے ہیں۔ (آیت) ” العاقبۃ للمتقین “۔ جس طر کافر کی قسمت میں فلاح حقیقی سے محرومی ہے اس طرح حسن عاقبت متقین کے نصیب کے ساتھ مخصوص ہے۔
Top