Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 88
وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ١ۘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١۫ كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ١ؕ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۠   ۧ
وَلَا تَدْعُ : اور نہ پکارو تم مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا : کوئی معبود اٰخَرَ : دوسرا لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا كُلُّ شَيْءٍ : ہر چیز هَالِكٌ : فنا ہونے والی اِلَّا : سوا اس کی ذات وَجْهَهٗ : اس کی ذات لَهُ : اسی کے لیے۔ کا الْحُكْمُ : حکم وَ : اور اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤگے
اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارئیے، کوئی معبود نہیں اس کے سوا ہر شے فنا ہونے والی ہے بجز اس کی ذات کے،116۔ حکومت اسی (ایک) کی ہے اور اسی کی طرف تم (سب) لوٹائے جاؤ گے
116۔ اس میں رد آگیا ان ساری مشرک قوموں کا جنہوں نے صانع مطلق کے ساتھ ساتھ روح یا مادہ یا کسی اور چیز کو بھی ازلی وابدی تسلیم کیا ہے۔ وحدۃ الوجود کے ماننے والوں نے اس آیت سے اپنے عقیدہ پر بھی استدلال کیا ہے ان کی تقریریہ ہے کہ آیت میں (آیت) ” ھالک بصیغہ اسم فاعل ہے، نہ کہ یھلک بصیغہ مضارع وبمعنی مستقبل، گویا مراد یہ نہیں کہ عملی فنا آیندہ کسی زمانہ میں طاری ہوگا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ عملی فنا ہر موجود پر مستقلا طاری ہوتا ہی رہتا ہے۔ اور اس کا تحقق اسی صورت میں ممکن ہے جب ہالک کا کا لہا لک اور معدوم کو کالمعدوم کے معنی میں لیا جائے اور مراد یہ سمجھی جائے کہ موجودات کا وجود ذاتی نہ ہونے کے سبب سے ہر وقت قابل عدم ہے اور وجود مثل لاوجود کے ہے۔ (آیت) ” وجہہ “۔ سے مراد ذات باری ہے۔ اے الا ذاتہ (بیضاوی) الوجہ ھو الوجود والحقیقۃ (کبیر) والمراد کل شیء ھالک الاھو (کبیر) اے الاایاہ (ابن کثیر) الا ایاہ قالہ الزجاج (بحر) فالوجہ یعبربہ عن الذات (مدارک)
Top