Tafseer-e-Majidi - Al-Ankaboot : 28
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ١٘ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : (یاد کرو) جب قَالَ : اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم کو اِنَّكُمْ : بیشک لَتَاْتُوْنَ : تم کرتے ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی مَا سَبَقَكُمْ : نہیں پہلے کیا تم نے بِهَا : اس کو مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اور لوط کو (بھی ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا) جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ بیشک تم تو ایسی بےحیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا جہان والوں میں کسی نے نہیں کیا،32۔
32۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم سے متعلق حواشی سورة الاعراف پ 8 میں گزر چکے۔ (آیت) ” ماسبقکم بھا “۔ سے معلوم ہوا کہ ایک زمانہ دنیا پر ایسا بھی گزرا ہے جب انسان بدکاری کی اس خاص صورت سے واقف بھی نہ تھا اور یہیں سے بعض فقہاء نے استدلال کیا ہے اس حرکت کے خلاف وضع فطرت ہونے پر۔ وہ کہتے ہیں کہ امر خلقی و طبعی محتاج کسب وتعلیم نہیں ہوتا۔ اور جب انسان اس فعل سے ہزار ہا سال تک واقف نہ ہوا تو یہ خواہش اس کی فطرت وطبیعت میں داخل نہیں ہوسکتی، اس گندی حرکت کے تاریخی پہلو پر بھی حاشیہ سورة الاعراف ہی کے ذیل میں آچکا ہے۔
Top