Tafseer-e-Majidi - Al-Ankaboot : 31
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ١ۚ اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِیْنَۚۖ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَآ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰى : خوشخبری لے کر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم مُهْلِكُوْٓا : ہلاک کرنے والے اَهْلِ : لوگ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ : اس بستی اِنَّ : بیشک اَهْلَهَا : اس کے لوگ كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : ظالم (بڑے شریر) ہیں
اور جب ہمارے قاصد ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بشارت لے کر آئے،35۔ تو کہنے لگے ہم اس بستی والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں بیشک اس کے پاشندے بڑے بدکار ہیں،36۔
35۔ یہ قاصد انسانی شکل میں اللہ کے فرشتہ تھے۔ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ان کے صاحبزادہ اسحاق کی ولادت کی بشارت لے کر آئے تھے۔ ملاحظہ ہوں سورة الاعراف (پ 8) اور سورة ہود (پ 12) کے حاشیے۔ (آیت) ” رسلنا۔ رسول “۔ یہاں پیغمبر کے اصطلاحی معنی میں نہیں۔ قاصد کے عام لغوی معنی میں ہے۔ (آیت) ” البشری “۔ بشارت سے حضرت اسحاق کی ولادت کی بشارت مراد ہے۔ 36۔ مراد وہ بستیاں ہیں جن میں قوم لوط آباد تھی، یعنی شہر سدوم اور اس کے مضافات۔
Top