Tafseer-e-Majidi - Al-Ankaboot : 32
قَالَ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًا١ؕ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا١٘ٙ لَنُنَجِّیَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١٘ۗ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
قَالَ : ابراہیم نے کہا اِنَّ فِيْهَا : بیشک اس میں لُوْطًا : لوط قَالُوْا : وہ بولے نَحْنُ : ہم اَعْلَمُ : خوب جانتے ہیں بِمَنْ فِيْهَا : اس کو جو اس میں لَنُنَجِّيَنَّهٗ : البتہ ہم بچا لیں گے اس کو وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : سوا امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی كَانَتْ : وہ ہے مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے
ابراہیم (علیہ السلام) نے) کہا (مگر) وہاں تو لوط (بھی) ہیں (فرشتے) بولے ہم کو خوب معلوم ہے وہاں کون کون رہتا ہے ہم لوط اور ان کے گھروالوں کو بچا دیں گے بجز ان کی بیوی کے کہ وہ (عذاب میں) رہ جانے والوں میں ہوگی،37۔
37۔ حضرات انبیاء شفقت مجسم ہوتے ہیں۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو شاید شفقت میں اور زیادہ بڑھے چڑھے ہوئے تھے۔ فرشتوں سے سفارش ایک لطیف انداز میں کی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی اور ان کے انجام کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ سورة الاعراف (پ 8) سورة ہود (پ 12) (آیت) ” لننجینہ “۔ مرشد تھانوی (رح) نے آیت سے مستفاد فرمایا کہ کسی مجمع میں اہل اللہ کا ہونا اس پر نزول عقوبت سے مانع ہوجاتا ہے اور اس سے اہل اللہ کا جدا ہوجانا تو اس مانع کا ارتفاع ہے۔ (آیت) ” الا امراتہ “۔ یہ بھی فرمایا کہ مقربین کے ساتھ محض قرابت کا تعلق بدون ایمان کے نافع نہیں۔
Top