Tafseer-e-Majidi - Al-Ankaboot : 45
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
اُتْلُ : آپ پڑھیں مَآ : جو اُوْحِيَ : وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب سے وَاَقِمِ : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ ۭ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز تَنْهٰى : روکتی ہے عَنِ الْفَحْشَآءِ : بےحیائی سے وَالْمُنْكَرِ ۭ : اور برائی وَلَذِكْرُ اللّٰهِ : اور البتہ اللہ کی یاد اَكْبَرُ ۭ : سب سے بڑی بات وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَصْنَعُوْنَ : جو تم کرتے ہو
جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھا کیجیے اور نماز کی پابندی رکھیے،52۔ بیشک نماز بےحیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی رہتی ہے،53۔ اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے، اور اللہ تمہارے سب کاموں کو جانتا ہے،54۔
52۔ (آیت) ” اتل ....... اقم الصلوۃ “۔ یعنی تشریع قولی اور تشریع فعلی، دین کے دونوں کاموں میں برابر لگے رہیے۔ (آیت) ” اتل “۔ میں خطاب رسول اللہ ﷺ سے ہے اور (آیت) ” اقم “۔ میں رسول وامت دونوں سے۔ (آیت) ” اقم الصلوۃ “۔ اقامت صلوۃ کے تحت میں نماز کے وقت کی پابندی اور اس کے ارکان و شرائط کی رعایت آگئی۔ اقامۃ الصلوۃ اداؤھا فی وقتھا بقراء تھا ورکوعھا وسجودھا وقعودھا وتشھدھا و جمیع شروطھا (قرطبی) (آیت) ” اتل “۔ یعنی قرآن کی تلاوت خود بھی کیجئے اور دوسروں کو بھی سنائیے۔ علم عمل پر مقدم ہوتا ہے۔ اس ترتیب کے مطابق یہاں تلاوت قرآن کو اقامۃ الصلوۃ پر مقدم رکھا ہے۔ (آیت) ” من الکتب “۔ میں من بیانہ ہے۔ 53۔ یعنی نماز میں خاصہ طبعی یہی ہے کہ وہ عظمت الہی کا استحضار بار بار کرا کے ہر گناہ ومعصیت سے روک دیتی ہے۔ اب اگر نماز کے شرائط ہی پوری طرح نہ ادا کئے جائیں تو اسی نسبت سے ادائے نماز ناقص رہے گی۔ اور پھر اسی مناسبت سے اس کی یہ طبعی خاصیت بھی ضعیف ومضمحل رہے گی، یہاں تک کہ جو نماز بالکل سطحی اور اوپری ہوگی۔ اور روح نماز سے خالی، اس میں وہ برائیوں کے روک تھام والی قوت بھی گویا معدوم ہوگی۔ دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ نماز جو یاد الہی اور اس کی عظمت کے استحضار کی ایک اعلی ومکمل شکل ہے اس کا اقتضاء یہی ہے کہ وہ ہر برائی سے روک دے۔ اس کا اثر ہونا بھی چاہئے، عام اس سے کہ کسی پر ہو یا نہ ہو۔ (آیت) ” الصلوۃ “ میں ال عہد کا ہے۔ یعنی وہ نماز جو ظاہری وباطنی شرائط معین کے ساتھ ادا کی گئی ہو۔ (آیت) ” الفحشآء “۔ بےحیائی کے تصریح ذکر میں نکتہ یہ ہے کہ اکثر دوسری قوموں اور مذہبوں میں بےحیائی صرف جائز ہی نہیں بلکہ ایک لازمی جزوعبادت و نماز کا ہے۔ اور مغربی فاضلوں کی تحقیق یہ ہے کہ بیسوائی کی ابتدائی ہی مندروں اور مشرکانہ معبدوں کے سایہ پڑی ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر انگریزی۔ گویا یہاں یہ ارشاد ہوا کہ فحش دوسرے مذہبوں میں جزوعبادت ہو تو ہو، اسلامی عبادت تو اس کے جواز کی بھی روادار نہیں عین اسے توڑنے اور کاٹنے والی ہے۔ 54۔ اللہ کے یہی عالم کل ہونے کا مراقبہ ہی ہر مجاہدہ کو آسان بنادینے اور قلب میں خشیت پیدا کردینے کو کافی ہے۔ (آیت) ” ذکر اللہ اکبر “۔ ذکر الہی ہی کی افضل ترین ومکمل ترین فرد نماز ہے۔ (آیت) ” ولذکر اللہ اکبر “۔ کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں، کہ بڑائی تو بس اسی کے ذکر کی ہے نہ کہ کسی اور کے ذکر کی۔ اے لہ الکبر لالغیرہ (کبیر) اور ایک اور معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اللہ جو تمہیں یاد کرے گا اس کا مرتبہ اس یاد سے بھی بڑھا ہوا ہے جو تم اس کی کرتے رہتے ہو۔ اے ذکر اللہ ایاکم افضل من ذکرکم ایاہ (معالم) اے ذکر اللہ لکم بالثواب والثناء علیکم اکبر من ذکرکم لہ فی عبادتکم وصلواتکم (قرطبی) ابن عباس، ابن مسعود ابن عمر ؓ وغیرہ متعدد صحابیوں اور مجاہد وعکرمہ و سعید بن جبیر تابعین سے یہی معنی مروی ہیں۔ بلکہ ایک روایت میں تو خود رسول اللہ ﷺ سے۔ یروی ذلک عن ابن عباس ؓ وھو قول مجاھد وعکرمۃ و سعید بن جبیر ؓ ویروی ذلک مرفوعا عن ابن عمر عن النبی ﷺ (معالم) وقدروی ھذا من غیروجہ عن ابن عباس وروی ایضا عن ابن مسعود وابی الدرداء وسلم ان الفارسی وغیرھم (ابن کثیر) امام ابن جریر (رح) نے بھی ترجیح اسی توجیہ کو دی ہے۔ واشبہ ھذہ الاقوال بھادل علیہ ظاہر التنزیل قول من قال لذکر اللہ ایاکم افضل من ذکرکم ایاہ (ابن جریر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں اعمال سلوک کے اصول سب جمع ہوگئے یعنی تلاوت اور نماز اور ذکر اور مراقبہ۔ باقی جتنے اعمال و اشغال ہیں سب انہیں کے تابع ہیں۔
Top