Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور تم کسی طرح کفر کرسکتے ہو، درآنحالیکہ تمہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تمہارے درمیان اس کے رسول ﷺ موجود ہیں ؟ ،213 ۔ اور جو کوئی اللہ کو مضبوط پکڑتا ہے وہ ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کیا جاتا ہے،214 ۔
213 ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے دین حق سے ارتداد کی گنجائش ہی کب ہے جبکہ تم میں قرآن اور سنت رسول اللہ ﷺ موجود و محفوظ ہے ؟ ذلک لان تلاوتہ ایات اللہ علیھم حالا بعد حال مع کون الرسول فیھم الذی یزیل کل شبھۃ ویقرر کل حجۃ کالما نع من وقوعھم فی الکفر (بحر) (آیت) ” کیف تکفرون “۔ میں کفر سے مراد اعمال کفر کی طرف باز گشت ہے اور کیف اظہار تعجب کے لیے ہے۔ قالہ تعالیٰ علی جھۃ التعجب (قرطبی) قیل المراد بکفر ھم فعلھم افعال الکفرۃ (روح) (آیت) ” ایت اللہ “۔ یعنی قرآن کی آیتیں اور قرآن کے درمیان موجود و محفوظ ہے۔ (آیت) ” وفیکم رسولہ “۔ یعنی سردست تو وہ بہ نفس نفیس تشریف فرما ہیں ہر شبہ مٹا سکتے اور راہ بتا سکتے ہیں باقی ان کے بعد ان کے سنن وآثار یہی کام دیں گے۔ قیل الخطاب بجمیع الامۃ لان اثارہ وسننہ فیھم وان لم یشاھدوہ (بحر) 214 ۔ یہ صراط مستقیم یا سیدھی راہ دنیا میں فلاح کامل کی ہے اور آخرت میں جنت کی۔ (آیت) ” فقد ھدی “۔ یعنی اللہ سے تمسک کرتے ہو، یہ راہ راست ضرور ہی مرتب ہو کر رہے گی ،
Top