Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 116
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز کام نہ آئے گا عَنْھُمْ : ان سے (کے) اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے ( آگے) شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : آگ (دوزخ) والے ھُمْ : وہ فِيْھَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
بیشک جن لوگوں نے کفر (اختیار) کیا ہرگز ان کے ذرا بھی کام اللہ کے مقابلہ میں نہ ان کے مال آئیں گے نہ ان کی اولاد یہی لوگ دوزخ والے ہیں اس میں (ہمیشہ) پڑے رہیں گے،239 ۔
239 ۔ (آیت) ” اولٓئک “۔ سے مراد ایمان سے محروم کفار ہیں۔ اور چونکہ اس لفظ سے حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے، اہل سنت نے اس آیت سے معتزلہ کے خلاف استدلال کرکے کہا کہ خلود نار کی سزا صرف کافروں کے لیے ہے، گنہگار مومنین کے لیے نہیں، ولما افادت ھذہ الکلمۃ معنی الحصرثبت ان الخلود فی النار لیس الاللکافر (کبیر) (آیت) ” لن تغنی عنھم اموالھم “۔ یعنی یہ نہ ہوگا کہ مال کو بہ طور کفارہ یا توبہ پیش کرکے نجات حاصل کرلی جائے۔ یہود کے جو غلط سلط عقیدے اس باب میں ہوچکے تھے، ان کا ذکر پارۂ اول کے حاشیوں میں آچکا ہے۔ (آیت) ” ولا اولادھم “۔ ہندوؤں اور جینیوں میں یہ گمراہی خاص طور پر بڑھی ہوئی ہے۔ اولاد نرینہ کی اہمیت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ لڑکا ہی مرے ہوئے باپ کو پانی دے دے کر عذاب سے چھڑا لیتا ہے۔ منوجی کا یہ قول کتابوں میں نظر سے گزرا ہے کہ بیٹے کو سنسکرت میں ” پتر “ کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ باپ کو ” پت “ (دوزخ) سے چھڑا لاتا ہے۔
Top