Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 118
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا١ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ١ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ۖۚ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ١ؕ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والو) لَا تَتَّخِذُوْا : نہ بناؤ بِطَانَةً : دوست (رازدار) مِّنْ : سے دُوْنِكُمْ : سوائے۔ اپنے لَا يَاْلُوْنَكُمْ : وہ کمی نہیں کرتے خَبَالًا : خرابی وَدُّوْا : وہ چاہتے ہیں مَا : کہ عَنِتُّمْ : تم تکلیف پاؤ قَدْ بَدَتِ : البتہ ظاہر ہوچکی الْبَغْضَآءُ : دشمنی مِنْ : سے اَفْوَاهِھِمْ : ان کے منہ وَمَا : اور جو تُخْفِيْ : چھپا ہوا صُدُوْرُھُمْ : ان کے سینے اَكْبَرُ : بڑا قَدْ بَيَّنَّا : ہم نے کھول کر بیان کردیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : آیات اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْقِلُوْنَ : عقل رکھتے
اے ایمان والو اپنے سوا (کسی کو) گہرا دوست نہ بناؤ،241 ۔ وہ لوگ تمہارے ساتھ فساد کرنے میں، کوئی بات اٹھا نہیں رکھتے اور تمہارے دکھ پہنچنے کی آرزو رکھتے ہیں، بغض تو ان کے مونہوں سے ظاہر ہو پڑتا ہے اور جو کچھ ان کے دل چھپائے ہوئے ہیں، وہ اور بھی بڑھ کر ہے،242 ۔ ہم تو تمہارے لیے نشانیاں کھول کر ظاہر کرچکے ہیں،243 ۔ اگر تم عقل سے کام لینے والے ہو ،
241 ۔ (ایسا کہ اس سے اپنی ذاتی اور ملی راز کہہ ڈالو) (آیت) ” من دونکم “۔ یعنی بجز اپنی ملت والوں کے (آیت) ” بطانۃ “۔ کہتے ہیں راز دار دوست کو۔ ای مختصابکم یستبطن امورکم (راغب) بطانۃ الرجل خاصتہ الذین یستنبطون امرہ (قرطبی) قانون اسلام کے منکروں اور باغیوں سے تعلقات ایک خاص حد سے آگے بڑھانے کی اجازت کسی مسلم کو یا اسلامی اسٹیٹ کی رعایا کو نہیں کہ اس سے فرد اور ملت دونوں کو ضرر کے اندیشہ اور خطرے کھلے ہوئے ہیں، اور اس صریحی، معقول، مناسب اور ضروری انتظام کا نام بعض عقل کے دشمنوں نے ” تنگ نظری “ رکھا ہے۔ سبحان اللہ ! امراض وبائی میں پرہیز و احتیاط کا نام تو فخر کے ساتھ ” اصول حفظان صحت “ رکھا جائے، اور جو انتظام کفر و طغیان یعنی دنیا وآخرت دونوں کی بربادی سے بچنے کے لیے کیا جائے اس کا نام ” تنگ نظری “ پڑجائے۔ عقل دشمنی کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ فقہاء مدینہ بلکہ فقہاء حجاز نے عموما آیت سے استنباط کیا ہے کہ دشمن کی شہادت دشمن کے حق میں معتبر نہیں۔ لیکن امام ابوحنفیہ (رح) کے مذہب میں جائز ہے۔ وفی ھذہ الایۃ دلیل علی ان شھادۃ العدو علی عدوہ لاتجوز وبذلک قال اھل المدینۃ والحجاز وروی عن ابی حنیفۃ جواز ذلک (قرطبی) افسوس ہے کہ مسلمانوں نے آیت کے حکم پر عمل میں سستی اور مداہنت شروع ہی سے برتنی شروع کردی اور ابھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کو چندصدیاں بھی نہیں ہونے پائی تھیں کہ سلطنت کے کاروبار میں کھلم مسیحیوں، مسجوسیوں وغیرہ کو شریک کیا جانے لگا، امام قرطبی (رح) کا زمانہ پانچویں صدی ہجری کا ہے۔ حسرت، قلق اور درد کے لہجہ میں لکھتے ہیں۔ ” وقد انقلبت الاحوال فی ھذہ الازمان باتخاذ اھل الکتاب کتبۃ وامناء وتسودوا بذلک عند الجھلۃ الاغنیاء من الولاۃ والامراء یہ حال جب اس زمانہ کا تھا تو آج چودھویں صدی ہجری میں جبکہ زندگی کے ہر شعبہ میں کافروں کا غلبہ اور تسلط مسلمانون پر نمایاں ہے۔ صورتحال پر اظہار خیال کن لفظوں میں کیا جائے ! فقہاء مفسرین نے آیت کے ذیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ کافروں سے تشبہ تک جب جائز نہیں تو ان کے ساتھ مصاحبت تو بدرجہ اولی ممنوع ہوگی۔ لا خلاف بین علماء نا ان المراد بہ النھی عن مصاحبۃ الکفار من اھل الکتاب حتی نھی عن التشبہ بھم (ابن عربی) 242 ۔ یعنی ان کی مخفی عداوت کا درجہ تو اس سے بھی کہیں بڑھا ہوا ہے (آیت) ” ودوا ماعنتم “۔ فقرہ کافرانہ ذہنیت کا پورا ترجمان ہے۔ اس کے اندر گہری تعلیم اس بات کی آگئی کہ کوئی غیر مسلم کسی حال میں مسلموں کا حقیقی دوست اور ہوا خواہ ہو نہیں سکتا۔ (آیت) ” بدت البغضآء من افواھھم “ شدت عداوت میں غیر اختیاری طور پر زبان سے بھی ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ اشارہ زیادہ تر یہود مدینہ کی جانب ہے۔ یہ لوگ اب اپنا بغض اسلام مسلمانوں سے چھپا بھی نہیں رکھ سکتے تھے اور بےاختیار ان کی زبانوں سے ظاہر ہو ہی جاتا تھا۔ 243 ۔ آیت کے معنی دو طرح پر کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کافروں کے بعض وعداوت کے آثار و علامات تم پر روشن ہوگئے ہیں، جن سے تم انہیں فورا پہچان سکتے ہو، ثم بین اللہ تعالیٰ ان اظھار ھذہ الاسرار للمومنین من۔۔۔ علیھم (کبیر) دوسرے معنی یہ کہ تمہارے لیے ان سے ترک موالات کی آیتیں کھول کر بیان کی جاچکی ہیں۔ ای اظھرنا لکم الایات الدالۃ علی النھی عن موالاۃ اعداء اللہ تعالیٰ ورسولہ (روح) الدالۃ علی موالاۃ ال مومنین ومعاداۃ الکافرین (بیضاوی)
Top