Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
جب تم سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ ہمت ہاردیں،251 ۔ درآنحالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا،252 ۔ اور مسلمانوں کو تو اللہ ہی پر اعتماد رکھنا چاہیے،253 ۔
251 ۔ (اور جنگ سے الگ ہوبیٹھیں۔ لیکن اس ارادہ پر عمل نہیں کرنے پائیں) (آیت) ” ھمت “۔ ھم “۔ کے معنی میں عربی میں پختہ قصد وعزم کے بھی ہیں اور محض خفیف سے خیال اور شائبہ قصد کے بھی، یہاں مراد یہی آخری معنی ہیں، الھم قد یراد بہ العزم وقد یراد بہ الفکر وقد یراد بہ حدیث النفس (کبیر) والظاھر ان ھذا لھم لم یکن عن عزم بل کان مجرد حدیث نفس ووسوسۃ (روح) (آیت) ” طآئفتن “ ان دو جماعتوں سے مراد قبیلہ اوس کے بنی حارثہ اور قبیلہ خزرج کے بنی سلمہ ہیں۔ الطائفتان بنو سلمۃ من الخزرج وبنو حارثۃ من الاوس (ابن ہشام) ان دونوں دستوں نے عبداللہ بن ابی کی مثال دیکھ آن کی آن کمزوری اور بد ہمتی محسوس کی لیکن اللہ کے فضل نے دستگیری کی، اور وسوسہ کو وسوسہ کے درجہ سے آگے بڑھنے نہ دیا، اور یہ خیال بھی جو انہیں پیدا ہوا، اپنی قلت تعداد، قلت سامان، غرض ضعف مادی کی بنا پر پیدا ہوا نہ کی ضعف ایمان سے۔ انما کلہ ذلک منھا من ضعف او وھن اصابھما من غیر شک فی دینھما (ابن ہشام) انیسویں صدی عیسوی کا انگریز باسورتھ آسمتھ ابتدائی غزوات اسلام سے متعلق جو عموما تاریخی استناد رکھتے ہیں، کہتا ہے کہ یہ مظاہرے اخلاص وایثار و شجاعت کے لحاظ سے ہومر کے افسانوں سے بڑھے ہوئے ہیں (محمد اینڈ محمد نزم صفحہ 207) 252 ۔ (چنانچہ اس موقع پر بھی اس نے دستگیری کی اور اپنا فضل قائم رکھا) آیت ان دونوں ٹکڑیوں پر اظہار عتاب کے لیے نہیں، اظہار عنایت خاص والتفات کے لیے ہے “۔ حافظھما وولا ھما عن ذلک (ابن عباس ؓ 253 ۔ (اور چاہیے کہ آئندہ یاس وبدہمتی کے جذبات کو اپنے پاس بھی نہ پھٹکنے دیں) توکل طریقت کے اعلی صفات میں سے ہے اور محققین صوفیہ نے اس کی حقیقت پر مفصل بحثیں کی ہیں۔
Top