Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 12
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا سَتُغْلَبُوْنَ : عنقریب تم مغلوب ہوگے وَتُحْشَرُوْنَ : اور تم ہانکے جاؤگے اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم وَبِئْسَ : اور برا الْمِهَادُ : ٹھکانہ
آپ (ان) کے کفر والوں سے کہہ دیجئے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے اور جہنم کی طرف اکٹھے کئے جاؤ گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے،28 ۔
28 ۔ (آیت) ” تحشرون الی جھنم “ کا تعلق تو ظاہر ہے کہ آخرت ہی سے ہے۔ سوال آیت کے وعید اول (آیت) ” ستغلبون “ سے متعلق ہے کہ دشمنان دین کی اس مغلوبیت ومقہوریت کا تحقق کہاں ہوگا ؟ آخرت میں تو خیرہوہی گا لیکن آیا اس کے قبل اہل حق کے ہاتھوں میں اس دنیا میں بھی ؟ اہل تفسیر نے بالاتفاق اس کا جواب اثبات میں دیا ہے اور تصریح کی ہے کہ اس کا وقوع عنقریب اس دنیا میں ہوگا۔ چناچہ ہوا (آیت) ” ان الذین کفروا “۔ باقی یہ کہ اس سے کافروں کا کون ساگروہ متعین طور پر مراد ہے بعض نے پیشگوئی کا مصداق بدر میں حکومت مکہ کی ہزیمت کو ٹھہرایا ہے۔ المراد مشرکی مکۃ (معالم عن مقاتل) قل لمشر کی مکۃ ستغلبون یعنی یوم بدر (بیضاوی) قیل نزلت فی قریش قبل بدر بسنتین (بحر) لیکن اکثر نے مدینہ میں یہود کے پر قوت جتھوں اور جرگوں کی شکست وپامالی مراد لی ہے۔ یعنی الیھود ای تھزمون (قرطبی۔ عن ابن عباس) فالمراد من الموصول الیھود (روح) (آیت) ” ستغلبون “ میں س قرب وقوع کے لیے ہے یعنی اس دنیا میں اس کا مشاہدہ ہو کر رہے گا۔ والسین لقرب الوقوع ای تغلبون عن قریب وارید منہ فی الدنیا (روح) لیکن بہتر یہ ہوگا کہ لفظ کے اطلاق کو عام رکھا جائے اور یہود مشرکین جو بھی رسول اللہ ﷺ کے بعد میں مسلمانوں کے ہاتھ خوارومغلوب ہوئے، سب کو آیت کا مصداق یکساں ٹھہرایا جائے۔ والظاھر ان الذین کفروا یعم الفریقین المشرکین والیھود وکل قد غلب بالسیف والجزیۃ والذلۃ و ظھور الدلائل والحجج (بحر) بہرحال قرآنی پیشگوئی کا اعجازی رنگ ہر صورت میں عیاں ہے نزول آیت کے وقت مسلمانوں کی بےبسی بےسروسامانی وزبوں حالی دیکھ کر کوئی بھی انسانی دماغ یہ پیشگوئی نہیں کرسکتا تھا کہ حکومت مکہ یا دولت یہود کسی سے بھی یہ ایسی زبردست ٹکر لے سکتے ہیں۔
Top