Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 13
قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا١ؕ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ
قَدْ : البتہ كَانَ : ہے لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيَةٌ : ایک نشانی فِيْ : میں فِئَتَيْنِ : دو گروہ الْتَقَتَا : وہ باہم مقابل ہوئے فِئَةٌ : ایک گروہ تُقَاتِلُ : لڑتا تھا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَ : اور اُخْرٰى : دوسرا كَافِرَةٌ : کافر يَّرَوْنَھُمْ : وہ انہیں دکھائی دیتے مِّثْلَيْهِمْ : ان کے دو چند رَاْيَ الْعَيْنِ : کھلی آنکھیں وَ : اور اللّٰهُ : اللہ يُؤَيِّدُ : تائید کرتا ہے بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَعِبْرَةً : ایک عبرت لِّاُولِي الْاَبْصَارِ : دیکھنے والوں کے لیے
بیشک تمہارے لئے ایک نشانی (ان) دو گروہوں میں ہے جو باہم مقابل ہوئے ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑرہا تھا اور دوسرا کافر،29 ۔ یہ اپنے کو کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے ان سے (یعنی مسلمانوں سے) کئی گنا،30 ۔ اللہ اپنی نصرت سے جس کی چاہتا ہے مدد کردیتا ہے،31 ۔ بیشک اس (واقعہ) میں اہل بصیرت کے لیے (بڑا) سبق ہے،32 ۔
29 ۔ (میدان بدر میں 8 جنوری 2 ہجری میں) (آیت) ” ایۃ “۔ نشان اللہ کی قدرت وکارسازی اور رسول اللہ ﷺ کی صداقت کا) (آیت) ” فی فئتین “ یعنی دو گروہوں کے واقعہ میں۔ ایک گروہ مومنین بےسروسامان، دوسرا گروہ مشرکین باسروسامان کا۔ (آیت) ” فءۃ تقاتل فی سبیل اللہ “۔ یہ گروہ مومنین کا تھا۔ تعداد میں قلیل اور سامان میں حقیر۔ تعداد میں کل 313 تھے اور وہ بھی بغیر سامان حرب کے۔ اونٹ اتنے کم کہ چار چار پیادوں کے حصہ میں ایک ایک پڑتا تھا۔ گھوڑے لشکر بھر میں کل دو ، آہنی زر ہیں اتنے آدمیوں میں کل سات۔ (آیت) ” واخری کافرۃ۔ یہ لشکر حکومت مکہ کا تھا۔ تعداد میں مسلمانوں سے سہ چند تھا۔ یعنی 950، افراد پر مشتمل۔ قریش کے بہترین سواروں کے زیر قیادت اور ہر ضروری سامان سے آراستہ سوار ان میں 700 تھے اور سب سوار وزرہ پوش 100 تھے۔ 30 ۔ (لیکن یہ کثرت تعداد پھر بھی کچھ کام نہ آئی اور آخر کار ذلت وشکست مکہ ہی کو نصیب ہوئی) (آیت) ” یرونھم رای العین “۔ یعنی یہ محض وہم و خیال نہ تھا بلکہ واقعۃ مشاہدہ کررہے تھے۔ رؤیۃ آیت میں رؤیت چشم کے لیے ہے قال ابو علی الرؤیۃ فی الایۃ عین ولذلک تعدت الی مفعول واحد (قرطبی) یعنی رویۃ ظاہرۃ مکشوفۃ (کشاف) یرونھم مثلیھم “۔ کون کس کو کئی گنا دیکھ رہے تھے ؟ سوال کے جواب یا ضمیروں کی تعیین میں اہل تفسیر کے درمیان شدید اختلاف ہے اور بالکل بلادلیل قول کسی کا بھی نہیں، سب سے اسلم واحوط قول مفسر تھانوی کا نظر آتا ہے۔ جنہوں نے (آیت) ” یرونھم “۔ میں فاعل اور مفعول دونوں کی ضمیریں کافروں کی طرف پھیری ہیں۔ اور (آیت) ” مثلیھم “ میں ھم سے مراد مومنین سے لی ہے۔ مثلین۔ سے مراددو چند بھی لی گئی ہے اور سہ چند بھی اور مطلق کثرت تعداد بھی بغیر کسی عدد خاص کے تعین کے۔ زعم الفراء ان معنی یرونھم مثلھم ثلاثۃ امثالھم (بحر) بالمثلین مطلق الکثرۃ لاخصوص المثلین (جمل) 31 ۔ (چنانچہ اس موقعہ پر اس کی مشیت نصرت مومنین سے متعلق ہوگئی اور کافروں کے کام نہ ان کی تیاری آسکیں نہ کثرت تعداد) (آیت) ” من یشآء “۔ اس کی تائید اس عالم ابتلاء میں مصالح تکوینی کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ 32 ۔ (یعنی بڑا سبق ہدایت کا ان کے لوگوں کے لیے ہے جو بصیرت سے کام ہی لیتے رہتے ہیں۔ (آیت) ” عبرۃ “ تنوین عظمت کے لیے ہے یعنی ہدایت وبصیرت کا بہت بڑا سبق۔ التنوین للتعظیم ای عبرۃ عظیمۃ کائنۃ (روح)
Top