Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
یہ وہ لوگ ہیں جو فراغت اور تنگی (دونوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کے ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے،268 ۔
268 ۔ آرنلڈ وغیرہ فرنگی فاضلوں نے کہا ہے کہ عرب جیسی تندخو، جنگجو، جدل پیشہ قوم کے سامنے حلم وضبط، صلح ا آشتی کے ایسے معیار پیش کرنا، اور پھر اس تعلیم کو کامیاب بنانا بجائے خود ایک اعجاز ہے۔ (آیت) ” ینفقون “۔ یعنی راہ حق میں، دین کی خدمات میں خرچ کرتے رہتے ہیں، مطلق خرچ کرتے رہنا، چاہے کیسے ہی بیہودہ مقاصد کے لیے ہو، ظاہر ہے کہ شریعت میں ہرگز پسندیدہ نہیں، (آیت) ” فی السرآء والضرآء “۔ یعنی ہر حال اور ہر صورت میں دین اور امت کی مالی ضرورتوں سے متعلق خرچ کرتے ہیں، یہ نہیں کہ خوش حال ہوئے تو مسرفانہ عیش پرستیوں میں پڑکر نیک کاموں سے ہاتھ ہی روک لیا یا تنگدست ہوئے تو ناشکری میں آکر اپنی بساط بھر بھی خرچ کرنے سے رک گئے (آیت) ” الکظمین الغیظ “۔ کظم کہتے ہیں غصہ کے ضبط کرجانے کو، تو یہ لوگ وہ ہوئے جو غصہ سے مغلوب نہیں ہوجاتے، بلہ اس سے مقابلہ کرکے اسے زیر کرلیتے ہیں، اور اپنے اوپر قابو رکھتے ہیں، بعض اہل تحقیق نے یہ خوب لکھا ہے کہ یہاں فاقدمن الغیظ ارشاد نہیں ہوا ہے یعنی مدح اس کی نہیں آئی ہے کہ غصہ سرے سے آتا ہی نہیں ہو، بلکہ اس کی آئی ہے کہ اسے قابو میں رکھا جائے، اور عقل جذبات کے اوپر حاکم رہے، غصہ پیدا ہوتا ہے حرارت طبعی یا حمیت سے، اسے سرے سے فنا کردینا ہرگز اسلام کو مقصود نہیں، مقصود اسے صرف حدود کے اندر رکھنا ہے، غصہ مطلق صورت میں ہرگز ممنوع نہیں، نہ شرعا معصیت نہ عقلا مضر، بلکہ اگر حدود کے اندر ہے اور محل مناسب پر پیدا ہو تو عیب نہیں ہنر ہے، غصہ کے ضبط کرجانے کی فضیلتیں حدیث نبوی میں بہ کثرت وارد ہوئی ہیں، مثال کے لیے صرف ایک حدیث ملاحظہ ہو، من کظم غضبا وھو یقدر علی انفاذہ ملأاللہ قلبہ امنا و ایمانا۔ (قدرت نفاذ کے باوجود جو شخص اپنے غصہ کو روک لے جائے اللہ اس کا قلب امن و ایمان سے لبریز کردے گا۔ (آیت) ” العافین عن الناس “۔ یعنی لوگوں کے قصوروں، اور خطاؤں کو معاف بھی کردیتے ہیں، یہی نہیں کہ باوجود قدرت واستطاعت عطا وار سے انتقام نہیں لیتے، بلکہ اسے معاف بھی کردیتے ہیں، یہ درجہ کا ظمین الغیظ سے بلند تر ہے، وہ اگر محض ایک سلبی کیفیت تھی، تو یہ ایک ایجابی مرتبہ ہے۔ (آیت) ” المحسنین “۔ محسنین کا درجہ کا ظمین وعافین دونون سے بلند تر ہے۔ یعنی عفو سے بھی آگے بڑھ کر یہ اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں، خلاقی تعلیم کے موقع پر قرآن نے اکثر تدریج کو پیش نظر رکھا ہے، اور اس کی بہترین مثال یہ آیت ہے، تینوں مقامات فضیلت کے ہیں لیکن یہ تیسرا مقام فاضل ترین ہے۔ محدث بیہقی نے سیدنا حضرت علی بن حسین ؓ سے متعلق روایت نقل کی ہے کہ آپ کو ایک جاریہ وضو کرا رہی تھی کہ لوٹا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر آپ پر گرا۔ غصہ آنا امر طبعی تھا۔ جاریہ نے فورا الفاظ قرآنی (آیت) ” الکظمین الغیظ “۔ اپنی زبان سے ادا کئے۔ آپ کا غصہ دور ہوگیا، پھر جاریہ نے (آیت) ” العافین عن الناس “۔ پڑھا، آپ نے فرمایا ” میں نے معاف کردیا “۔ اب جاریہ کی زبان پر (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔ آیا آپ نے فرمایا ” جا میں نے تجھے آزاد کردیا “۔ (روح) رسول اسلام ﷺ کی زندگی تو خیر من وعن، قرآن کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی تھی ہی۔ رسول ﷺ سے متعلق قرب و قرابت رکھنے والے بھی کس درجہ نفوس قدسیہ کے مالک بن چکے تھے۔
Top