Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 174
فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌ١ۙ وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ
فَانْقَلَبُوْا : پھر وہ لوٹے بِنِعْمَةٍ : نعمت کے ساتھ مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَفَضْلٍ : اور فضل لَّمْ يَمْسَسْھُمْ : انہیں نہیں پہنچی سُوْٓءٌ : کوئی برائی وَّاتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی رِضْوَانَ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَظِيْمٍ : بڑا
سو یہ لوگ اللہ کے انعام اور فضل کے ساتھ واپس آئے کہ انہیں کوئی ناگواری (ذرا) نہ پیش آئی اور یہ لوگ رضاء الہی کے تابع رہے،358 ۔ اور اللہ بڑا فضل والا ہے،359 ۔
358 ۔ (اور یہی رضاء الہی سر چشمہ ہے دنیوی اور اخروی ہر قسم کے نفع و راحت کا) (آیت) ” فانقلبوا “۔ یعنی مقام بدر تک جا کر مسلمان واپس آئے، اہل سیر وتاریخ کی زبان میں یہ واقعہ غزوۂ بدر ثانیہ کے نام سے موسوم ہے اور اس کا زمانہ شعبان 4 ؁ ہجری کا ہے۔ سیرت ابن ہشام میں ہے :۔” آپ ﷺ نے ابوسفیان کا انتظار آٹھ دن تک کیا اور ابوسفیان بھی مکہ والوں کو لے کر روانہ ہوا مگر نواحی ظہران میں پہنچا تو اس کی رائے مکہ واپس چلے آنے کی ہوئی اور اس نے قریش سے مخاطب ہو کر کہا کہ تمہارے سفر کے لیے تو ایسا موسم مناسب ہے جس میں تم اپنے جانوروں کو چرا بھی سکو اور دودھ بھی خوب پی سکو اور یہ موسم تو خشکی کا ہے سو میں تو واپس چلا تم بھی واپس چلے چلو چناچہ وہ لوگ واپس ہوگئے “۔ (آیت) ” بنعمۃ من اللہ “۔ یعنی نعمت مقبولیت اور ترقی ایمان کے ساتھ۔ (آیت) ” فضل “۔ یعنی دنیوی نفع کے ساتھ بھی۔ مال کی نکاسی خوب ہوئی۔ 359 ۔ چناچہ یہاں اس کا فضل مسلمانوں پر ان صورتوں میں ظاہر ہوا۔ ( 1) ان کے درجہ ایمان میں ترقی ہوئی۔ (2) انہیں معرکہ جہاد میں نکلنے کی توفیق ہوئی۔ (3) وہ ہر قوت دشمن کی شوکت وصولت سے ذرا مرعوب نہ ہوئے۔ مقابلہ کی ہمت قائم رکھی۔ (4) مالی وتجارتی دنیوی نفع حاصل ہوئے۔ (5) اجر عظیم کی بشارت ملی۔
Top