Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 19
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ١۫ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اِنَّ : بیشک الدِّيْنَ : دین عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الْاِسْلَامُ : اسلام وَمَا : اور نہیں اخْتَلَفَ : اختلاف کیا الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِ : بعد سے مَا جَآءَھُمُ : جب آگیا ان کے پاس الْعِلْمُ : علم بَغْيًۢا : ضد بَيْنَھُمْ : آپس میں وَمَنْ : اور جو يَّكْفُرْ : انکار کرے بِاٰيٰتِ : حکم (جمع) اللّٰهِ : اللہ فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب
یقیناً دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے،46 ۔ اور جو اختلاف کیا اس میں اہل کتاب نے سو وہ آپس کی ضد سے کیا بعد اس کے کہ انہیں صحیح علم پہنچ چکا تھا،47 ۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے انکار کرے گا سو اللہ یقیناً جلد حساب لینے والا ہے،48 ۔
46 ۔ (نہ کہ مطلقا ہر وہ چیز جسے دین کے نام سے موسوم کردیاجائے) یہ رد ہے بادشاہ اکبر اور دوسرے بددینوں کے اس عقیدہ کا، کہ ہر دین دین حق ہے، اور ہر مسلک خدا ہی کی راہ ہے۔ اور دیر وحرم کفر و ایمان میں فرق صرف لفظی واصطلاحی ہے۔ خط مستقیم حقیقت یہ ہے کہ دو نقطوں کے درمیان صرف ایک ہی ممکن ہے باقی سب خطوط مخنی وکج ہوں گے، راہ مستقیم خدا اور بندے کے درمیان صرف ایک ہی ہے اور اسلام ہے جو انبیاء وہادیان حق کا دین ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ (آیت) ” الدین “۔ یعنی دین مقبول (آیت) ” الدین “۔ اور (آیت) ” الاسلام “ دونوں کا معرفہ ہونا حصر کے معنی دے رہا ہے یعنی دین مقبول صرف یہی ہے۔ وتعریف الجزئین للحصرای لادین مرضی عنداللہ تعالیٰ سوی الاسلام (روح) 47 ۔ (نہ کہ کسی اجتہاد فکری اور اختلاف فہم کی بناپر) یہاں پھر ایک بار اسے کھول کر بیان کردیا ہے کہ اہل کتاب کا راہ حق سے انحراف کسی خطاء واجتہادی کی بناء پر نہیں، نفسانیت وہوا پرستی کی بنا پر ہے۔ یہود پہلے سے بھی یہی کہتے چلے آرہے تھے کہ راہ حق ہماری راہ ہے۔ اس لیے کہ فلاں فلاں بزرگ ہمارے مورث ہوئے ہیں اور اسرار کائنات ﷺ کے زمانہ میں بھی ان کا کہنا یہ تھا کہ نبوت تو اسرائیلیوں کا حق رہی ہے، یہ نعمت ایک اسمعیلی کے حصہ میں کیونکر جاسکتی ہے۔ ؟ (آیت) ” بغیا بینھم “ یعنی نفسا نفسی اور ضدم ضدی آپس میں بھی اور دین حق سے بھی۔ (آیت) ” من بعد ما جآء ھم العلم “۔ یعنی ان پر دین حق کی تبلیغ پوری طرح ہوچکی اور دین برحق کی حقانیت وصداقت کے دلائل واضح انہیں پہنچ چکے۔ 48 ۔ (اور حساب کا جو انجام منکرین ومعاندین کے حق میں ہونے والا ہے، بالکل ظاہر ہے)
Top