Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
آپ کہیے اے سارے ملکوں کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے دے اور تو جس سے چاہے حکومت چھین لے،63 ۔ تو جسے چاہے عزت دے،64 ۔ اور تو جسے ذلت دے،65 ۔ تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔66 ۔
63 ۔ رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے طریق دعا کی تعلیم امت کو دی جارہی ہے۔ (آیت) ” ملک الملک “۔ ملک سے مراد سارا جہاں ہے مالک کا لفظ دعا کے شروع ہی میں لاکر یاد دلادیا کہ مالکانہ تصرف کا حق واختیار اسی کو حاصل ہے جس سے دعا کی جارہی ہے (آیت) ” تؤتی وتنزع “۔ حکومت کی نعمت دینا یا اس نعمت کو واپس لے لینا تمامتر احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے اور نفس بادشاہت یا حکومت میں تقدس یا الوہیت ذرا سی بھی نہیں۔ اس میں رد آگیا اس کثرت سے پھیلے ہوئے جاہلی عقیدہ کا، کہ بادشاہی خود ایک درجہ الوہیت یا نیم الوہیت کا ہے اور کسی کا بادشاہ ہوجانا گویا خدا کے اوتار کے مرتبہ پر پہنچ جانا ہے۔ مصر میں فرعون کی پرستش ہوتی رہی۔ ہندوستان میں چندر بنسی اور سورج بنسی راجہ مہاراجہ خدائی اوتار سمجھے گئے، جاپان میں میکاڈو آج تک مظہر خدا کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سب اسی عقیدۂ شاہ پرستی کے مظاہر ہیں۔ اسلام نے آکر بتایا کہ بادشاہی بھی ساری دوسری نعمتوں کی طرح ایک خدائی تصرف ہے اور بادشاہ بھی بندگی، بےبسی، بیچارگی میں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے سارے دوسرے بندے، حقیقت ہمیشہ سے اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس وقت اس کا نظارہ پوری قوت وشدت کے ساتھ مسولینی (آمراٹلی) وہٹلر (آمرجرمنی) کے انجام سے کرادیا گیا ہے۔ 64 ۔ (اپنی حکمت کاملہ کے مطابق) اس (آیت) ” من تشآء “۔ (جسے تو چاہے) کی وسعت اطلاق میں قومیں بھی آگئیں اور فرد بھی۔ اور عزت کا سب سے بڑا ممکن مرتبہ یاد کرلیا جائے کہ نبوت ہے۔ اس طرح گویا اہل کتاب کو یہ یاد دلادیا کہ جس قوم کے جس فرد کو وہ چاہے مرتبہ نبوت سے سرفراز کردے۔ اس پر حسد بالکل بےمعنی ہے۔ 65 ۔ (اس کے پاداش عمل میں) (آیت) ” من تشآء “۔ کا عموم اطلاق یہاں بھی فرد وقوم دونوں پر حاوی ہے کوئی فرد تو مرتبہ نبوت سے معزول ہوا نہیں ہے۔ البتہ یہ نعمت قوموں سے سلب ہوسکتی ہے۔ چناچہ قوم اسرائیل صدیوں تک اس نعمت سے سرفراز رہنے کے بعد معزول کی گئی، اور یہ نعمت اپنی انتہائی اور آخری شکل میں عرب قوم کے ایک ممتاز فرد کے حصہ میں آئی۔ 66 ۔ (تو اہل کتاب اس پر حیرت کیوں کررہے ہیں کہ نعمت نبوت سے عرب قوم کے ایک فرد کو سرفراز کیا جارہا ہے) (آیت) ” الخیر “۔ یعنی بھلائی ہر قسم کی اور ہر مرتبہ، درجہ کی۔ کائنات میں وجود ایجابی صرف خیر کا ہے اس لیے ذکر اسی کا کیا گیا اس کے مقابل کی چیز یعنی شر محض ایک سلبی حقیقت کا نام ہے۔ یہاں جو بجائے (آیت) ” بیدک الخیروالشر “۔ کے صرف (آیت) ” بیدک الخیر “۔ کا ارشاد واقع ہے اس سے عارفین صوفیہ نے یہ نکتہ نکالا ہے کہ جس چیز میں بندہ کے ارادہ اختیار کو دخل نہ ہو وہ محض خیر ہی ہے۔ اسے ناگوار نہ جانے اور اسے اپنے حق میں عذاب ومصیبت نہ سمجھے۔
Top