Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 30
یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا١ۛۖۚ وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ١ۛۚ تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًا١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ۠   ۧ
يَوْمَ : دن تَجِدُ : پائے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کی مِنْ : سے (کوئی) خَيْرٍ : نیکی مُّحْضَرًا : موجود وَّمَا : اور جو عَمِلَتْ : اس نے کی مِنْ : سے۔ کوئی سُوْٓءٍ : برائی تَوَدُّ : آرزو کریگا لَوْ اَنَّ : کاش کہ بَيْنَهَا : اس کے درمیان وَبَيْنَهٗٓ : اور اس کے درمیان اَمَدًۢا : فاصلہ بَعِيْدًا : دور وَيُحَذِّرُكُمُ : اور تمہیں ڈراتا ہے اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : شفقت کرنے والا بِالْعِبَادِ : بندوں پر
جس روز ہر شخص اپنے ہر نیک عمل کو سامنے لایا ہوا پائے گا،76 ۔ اور (اسی طرح) ہر برے کام کو بھی (اس روز) تمنا کرے گا کہ کاش اس شخص اور اس دن کے درمیان مسافت بعید ہوتی،77 ۔ اور اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے،78 ۔ اور اللہ اپنے پر بڑا شفقت کرنے والا ہے،79 ۔
76 ۔ (جزاء اعمال کے لیے) (آیت) ” یوم “۔ یعنی قیامت کے دن۔ (آیت) ’ محضرا “۔ اپنے مواجہہ میں اور اللہ کے حضور میں۔ لدیھا مشاھدا (روح) (آیت) ” ماعملت “۔ یعنی اس عمل کو نامہ اعمال میں لکھا ہوا۔ یا ان اعمال کی جزاء کو۔ فی الصحف (روح) وقیل تجد جزاء اعمالھا محضرا (روح) تقدیرہ یوم تجد کل نفس جزاء ما عملت محضرا (قرطبی) صحائف اعمالھا اوجزاء اعمالھا (بیضاوی) بعض صوفیہ عارفین نے یہ معنی کئے ہیں کہ انسان بجنسہ اس عمل کو کرتے ہوئے اپنے کو پائے گا۔ قیل ظاہرا فی صور (روح) حضرت اکبر الہ آبادی (رح) اردو کے مشہور شاعر ہونے کے ساتھ ہی حکیم وعارف بھی تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو ہر وقت ہم بولا کرتے ہیں کہ ” وقت چلا گیا “ وقت جاتا کہاں ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے ہاں چلا جاتا ہے۔ سب اس روز بجنسہ دوبارہ واقع ہو کر رہے گا۔ 77 ۔ (کہ اعمال بد یا ان کی جزا کا معائنہ نہ کرنا پڑتا) یہ حسرت ان کے دلوں میں پیدا ہوگی جن کے پاس اعمال خیر وشر کا مجموعہ ہوگا۔ تو جس بدنصیب کے پاس شرہی شر ہوگا اس کی حسرت نصیبی کا کیا پوچھنا ! (آیت) ” بینھا “۔ میں ضمیر (آیت) ” نفس “ کی طرف اور بینہ ” میں یوم کی طرف ہے۔ 78 ۔ (کہ قابل عظمت وصاحب اقتدار ذات صرف اسی کی ہے) (آیت) ” نفسہ “۔ سے مراد عقاب نفسہ سمجھی گئی ہے۔ 79 ۔ (چنانچہ یہ بار بار کی تنبیہ وتہدید بھی اسی شفقت ورافت ہی کا نتیجہ ہے کہ کاش بندے اب بھی سنبھلیں اور راہ ہلاکت پر چلنے سے باز رہیں)
Top