Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 5
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِؕ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَخْفٰى : نہیں چھپی ہوئی عَلَيْهِ : اس پر شَيْءٌ : کوئی چیز فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي السَّمَآءِ : آسمان میں
بیشک اللہ ایسا ہے کہ اس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہتی نہ زمین میں اور نہ آسمان میں،1 1 ۔
1 1 ۔ جاہلی مذہبوں کے حکماء تک آخر جاہلی تھے ! یونان کے نامی گرامی عقلاء وحکماء تک یہ کہہ گئے اور سکھلا گئے کہ علم باری صرف کلیات تک محدود رہتا ہے۔ جزئیات کو محیط نہیں ہوتا۔ اور مسیحیوں نے خیر نبوت کی برکت سے کھلم کھلا اس عقیدہ کو تو نہ مانا، تاہم مرعوب اس ” حکیمانہ “ تعلیم سے اچھے خاصے رہے ،۔ قرآن مجید نے للکار کر بتایا کہ یہ علم باری کا کمال نہیں، عین نقص ہوا، علم باری ہر حیثیت سے کامل ہے اور چھوٹی بڑی ہر چیز پر حاوی۔ (آیت) ” الارض والسمآء “ آسمان اور زمین کے نام اس سلسلہ میں اس لئے دیئے گئے کہ علم انسانی کی وسعت گرفت انہیں حدود کے اندر محدود ہے، ضمنا خطاب مسیحیوں سے بھی ہے کہ تم جو مسیح (علیہ السلام) کو خدا مانتے ہو تو بتاؤ ان کا علم کامل کہاں سے تھا اور خدا نے بندہ کی شکل اختیار کرکے کیسے اتنا بڑا نقص اپنے اندر گوارا کرلیا ؟
Top