Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 99
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا وَّ اَنْتُمْ شُهَدَآءُ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ تَصُدُّوْنَ : کیوں روکتے ہو عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے تَبْغُوْنَھَا : تم ڈھونڈتے ہو اس کے عِوَجًا : کجی وَّاَنْتُمْ : اور تم خود شُهَدَآءُ : گواہ (جمع) وَمَا : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
آپ کہیے کہ اے اہل کتاب جو ایمان لا چکا اسے تم کیوں اللہ کی راہ سے ہٹا رہے ہو اس (راہ) میں کجی نکال نکال کر درآنحالیکہ تم (خود) گواہ ہو اور اللہ تمہارے کرتوتوں سے بیخبر نہیں،211 ۔
211 ۔ (سو اس کی گرفت اور عذاب سے اپنے کو باہر نہ سمجھو) (آیت) ” تصدون عن سبیل اللہ “۔ یہود خود تو اسلام سے منکر تھے ہی اب ان کی جرأتیں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ طرح طرح کے مکروفن سے دوسروں کو بھی دین حق سے ہٹانے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔ (آیت) ” تبغونھا عوجا “۔ یہود مسلمانوں کے آپس میں طرح طرح کی مخفی فتنہ انگیزی اور مفسدہ پردازی کرتے رہتے تھے کہ اگر وہ کچھ نہیں بن پڑتا تو یہی ہو کہ یہ آپس میں مرکٹ کے تباہ ہوجائیں، چناچہ ایک مرتبہ ایک مجمع میں جہاں مدینہ کے دونوں مشہور اور جنگجو قبیلوں اوس اور خزرج کے مسلمان جمع تھے ایک یہودی شماس بن قیس نے ان کی عہد جاہلیت کی مشہور لڑائی جنگ بعاث کے پرجوش جنگ نامہ کے اشعار پڑھوادیئے۔ دلوں میں گزشہ عداوتوں کی یاد تازہ ہوگئی اور فریقین قدرۃ بھڑک اٹھے اور عین موقع پر اگر رسول اللہ ﷺ خود تشریف نہ لے آتے تو خانہ جنگی شروع ہی ہوچکی ہوتی۔ (آیت) ” تبغونھا “ میں ضمیر مؤنث غائب سبیل کی طرف ہے۔ الھاء فی تبغونھا عائدۃ الی السبیل (کبیر) (آیت) ” وانتم شھدآء “۔ یعنی تمہارا ضمیر خود گواہی دے رہا ہے کہ اسلام دین حق ہے۔
Top