بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے نبی اللہ سے ڈرتے رہئے،1۔ اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانئے،2۔ بیشک اللہ بڑا جاننے والا ہے بڑا حکمت والا ہے،3۔
1۔ (جیسا کہ اب تک ڈرتے رہے ہیں) اور جو اللہ سے ڈرے گا، وہ مخلوق کے ڈراوے دھمکیوں سے یقیناً بےنیاز وغیرہ متاثر رہے گا۔ (آیت) ” یایھا النبی “۔ محققین نے کہا ہے کہ بجائے اسم علم کے اسی اسم وصفی سے مخاطب کرنا رسول کی عظمت واکرام کے اظہار کے لئے ہے۔ ناداہ جل وعلابوصفہ دون اسمہ تعظیما لہ وتفخیما (روح) جعل نداء ہ بالنبی والرسول کر امۃ لہ وتشریفا (کشاف) انما لم یقل یا محمد تشریفا لہ وتنویھا بفضلہ (مدارک) 2۔ (جیسا کہ اب تک بھی نہیں مانا ہے) کافر تو دین کے خلاف مشورے کھلم کھلا دیتے ہی رہتے تھے اور منافقین درپردہ انہیں کے ہم رائے ہوجاتے تھے ...... اصطلاح قرآن میں (آیت) ” الکفرین “۔ کھلے ہوئے کافروں کے لئے آتا ہے۔ اور (آیت) ” المنفقین “۔ چھپے ہوئے کافروں کیلئے۔ عقائد کفر کے لحاظ سے دونوں یکساں وہم سطح۔ 3۔ اور اس لئے اس کا ہر حکم حکمتوں اور مصلحتوں ہی پر شامل ہوتا ہے۔ کسی انسان کا یہ مشورہ دینا کہ فلاں حکم الہی خلاف مصلحت ہے، خود اپنے جہل وسفاہت کا ثبوت دینا ہے۔
Top