Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 21
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ
لَقَدْ كَانَ : البتہ ہے یقینا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْ : میں رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُسْوَةٌ : مثال (نمونہ) حَسَنَةٌ : اچھا بہترین لِّمَنْ : اس کے لیے جو كَانَ يَرْجُوا : امید رکھتا ہے اللّٰهَ : اللہ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ : اور روز آخرت وَذَكَرَ اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کرتا ہے كَثِيْرًا : کثرت سے
رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے تمہارے لئے،43۔ یعنی اس کے لئے جو ڈرتا ہو اللہ اور روز آخرت سے اور ذکر الہی کثرت سے کرتا ہو
43۔ (زندگی کے ہر شعبہ اور ہر پہلو میں، خصوصا ثبات و استقامت میں) رسول اللہ ﷺ کا اتباع تو مومنین پر چھوٹے بڑے ہر امر میں واجب ہے اور آپ ﷺ کی زندگی انسان کے لئے انفرادی واجتماعی، خانگی وملی، معاشری واخلاقی ہر ہر گوشہ میں شمع ہدایت ہے، لیکن یہاں اشارہ خصوصی معرکہ جنگ میں ثبات و استقامت سے متعلق ہے، فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ آیت کے اندر ایک اصل عظیم آگئی ہے۔ اور اس سے زندگی کے چھوٹے بڑے سارے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کی اقتداء وپیروی کے وجوب پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ھذہ الایۃ الکریمۃ اصل کبیر فی التاتی برسول اللہ ﷺ فی اقوالہ وافعالہ واحوالہ ولھذا امر تبارک وتعالی الناس بالتاتی بالنبی ﷺ یوم الاحزاب فی صبرہ ومصابرتہ ومرابطتہ ومجاھدتہ وانتظارہ الفرج من ربہ عزوجل دائما الی یوم الدین (ابن کثیر) الاسوۃ القدرۃ والاسوۃ مایتأتی بہ اے یتعزی بہ فیقتدی بہ فی جمیع افعالہ ویتعزی بہ فی جمیع احوالہ (قرطبی) (آیت) ” فی رسول اللہ “۔ اس لفظ نے صاف کردیا کہ یہ مقتدائی وصف رسالت کے اعتبار سے ہوگی۔ (آیت) ” رسول اللہ “۔ میں لفظ اللہ سے یہ نکتہ پیدا کیا گیا ہے کہ رسول کے کمالات شخصا آپ ﷺ کی جانب نہیں، براہ راست حق تعالیٰ ہی کی جانب منسوب ہیں (آیت) لمن ...... کثیرا “۔ یعنی مومن کامل کیلئے۔
Top