Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 25
وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا١ؕ وَ كَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًاۚ
وَرَدَّ : اور لوٹا دیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا (کافر) بِغَيْظِهِمْ : ان کے غصے میں بھرے ہوئے لَمْ يَنَالُوْا : انہوں نے نہ پائی خَيْرًا ۭ : کوئی بھلائی وَكَفَى : اور کافی ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) الْقِتَالَ ۭ : جنگ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ قَوِيًّا : توانا عَزِيْزًا : غالب
اور اللہ نے کافروں کو اس غصہ میں بھرا ہوا ہٹا دیا کہ ان کے کچھ بھی ہاتھ نہ لگا،48۔ اور جنگ میں اللہ اہل ایمان کے لئے کافی ہوگیا،49۔ اور اللہ تو ہے ہی بڑا قوت والا بڑا زبردست،50۔
48۔ (اور انہیں محاصرۂ مدینہ سے ناکام، ناشاد، نامراد واپس جانا پڑا) (آیت) ” خیرا “۔ یعنی جو بھلائی ان کے خیال کے مطابق ہے۔ مراد فتح و کامیابی سے۔ اے ظفرا وسماہ خیرا بزعمھم (مدارک) 49۔ (کہ بغیر کسی بڑی لڑائی کے انہیں نجات دلادی) محمد بن عبداللہ (روحی فداہ) جس طرح حالت امن میں بہترین مدبر وبہترین منتظم تھے، اسی طرح حالت جنگ میں بہترین جنرل بھی تھے، ترتیب صفوف، مورچہ بندی وغیرہ تمام مسائل فن حرب میں بےمثال بصیرت رکھنے والے، لیکن باوجود اس سب کے قرآن مجید آپ ﷺ کے لشکروں کی فتح وظفر کو آپ ﷺ کے کمالات سپہ سالاری کی جانب نہیں، بلکہ اپنی ہی قدرت و حکمت کی جانب منسوب کرتا رہتا ہے۔ اور قرآن کا مقصود ہی یہ ہے کہ زندگی کے ہر ہر شعبے میں بندہ کا تعلق براہ راست حق تعالیٰ ہی سے جڑا رہے۔ 50۔ (اس کے لیے ایسا کرنا مشکل ہی کیا تھا) ۔
Top