Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجیے کہ اگر تم دنیوی اور اس کی بہار کو مقصود رکھتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ متاع (دنیوی) دے دلاکر خوبی کے ساتھ رخصت کردو،53۔
53۔ یعنی طلاق دے دوں کہ جہاں چاہو آزادی سے رہ کر دنیا حاصل کرو، فتح خیبر کے بعد جب مسلمانوں کو مالی وسعت اچھی خاصی ہوگئی تو ازواج مطہرات کو، جو ظاہر ہے کہ نبی اور صاحب وحی نہ تھیں، محض امتی تھیں، قدرۃ یہ خیال گزرا کہ اب ہمارے نفقہ میں بھی معقول اضافہ ہونا چاہیے، اسی خواہش کا اظہار رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا اور ذرا تقاضا کے ساتھ، رسول، صاحب وحی کے قلب مبارک کی اذیت کے لیے دنیا طلبی کی اتنی جھلک بھی بہت تھی، یہ آیتیں اس پر نازل ہوئیں۔ یہ اختیار دینے کو تو دیدیا گیا۔ لیکن اس کے مل جانے کے بعد حضرت عائشہ ؓ سے لے کر کسی ایک بیوی صاحبہ تک نے عیش دنیاکو ترجیح نہ دی، سب کی سب بدستور اللہ و رسول کے ساتھ وابستہ رہیں۔ تعالین۔ اس کے لفظی معنی ” آؤ “ مراد نہیں، صرف یہ مراد ہے کہ ” ادھر متوجہ ہو “ ، یہ بات سنو “۔ جیسا کہ اردو محاورہ میں بھی بولتے ہیں۔ ومعنی تعالین اقبلن بارادتکن واختیار کن لاحد الامرین (مدارک) (آیت) ” تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا “۔ تردن “۔ کا لفظ بہت اہم ہے۔ دنیوی زندگی اور اس کے جائز عیش ہرگز ممنوع نہیں، ممنوع و مذموم انہیں مقصود بنالینا ہے۔ (آیت) ’ تردن “۔ اسی مفہوم کا ترجمان ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ دنیا اور اس کی زینتوں کی محبت اللہ اور رسول سے بعد کا سبب ہے۔
Top