Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 32
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو لَسْتُنَّ : نہیں ہو تم كَاَحَدٍ : کسی ایک کی طرح مِّنَ النِّسَآءِ : عورتوں میں سے اِنِ : اگر اتَّقَيْتُنَّ : تم پرہیزگاری کرو فَلَا تَخْضَعْنَ : تو ملائمت نہ کرو بِالْقَوْلِ : گفتگو میں فَيَطْمَعَ : کہ لالچ کرے الَّذِيْ : وہ جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں مَرَضٌ : روگ (کھوٹ) وَّقُلْنَ : اور بات کرو تم قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی ( معقول)
اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرف نہیں ہو جب کہ تم تقوی اختیار کر رکھو،59۔ تو تم بولی میں نزاکت مت اختیار کرو کہ (اس سے) ایسے شخص کو خیال (فاسد) پیدا ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے،60۔ اور قاعدے کے موافق بات کہا کرو،61۔
59۔ ازواج نبی ؓ عنھن کا مرتبہ وشرف امت کی عام عورتوں سے یقیناً کہیں زائد ہے۔ لیکن یہ شرط بہرحال ان کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہے کہ جادۂ تقوی سے قدم نہ ہٹنے پائے۔ یا حرف خطاب جلب تو جہ مزید کے لیے ہے۔ (آیت) ” کا حد من النسآء “ یعنی تم میں صرف انسانیت ہی نہیں۔ بلکہ دوسرے اوصاف فاضلہ بھی ہیں۔ جن سے مساوات ومماثلت ممکن نہیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ تینوں آیتوں کا مجموعہ اس پر دال ہے کہ جس کی فضیلت زیادہ ہے اس کا عصیان و اطاعت دونوں اوروں سے اشد واکمل ہیں۔ اور یہی اصل ہے۔ ع :” نزدیکاں رابیش بود حیرانی “ کی۔ 60۔ عورت کی آواز میں جو قدرتی نرمی اور لوچ ہوتا ہے اس کو بڑا دخل مرد کی خواہش نفسانی کے ابھارنے میں ہے۔ چناچہ جدید نفسیین نے بھی اس کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر انگریزی۔ اسلام کے ہمہ داں۔ ہمہ بین۔ شارع عزوجل نے نفس کے اس محرک کو بھی اجراء احکام میں پوری طرح پیش نظر رکھا ہے۔ اس کی ہدایت امت کی ہر عورت کے لیے ہے کہ اپنی آواز کی نزاکت سے کسی نامحرم کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دے۔ اور ازواج نبی کیلیے ان کے شرف واحترام کی مناسبت سے اس کا اور زیادہ اہتمام ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں اسباب فتنہ سے بچنے کا ارشاد ہے۔ اگرچہ اسباب بعید ہی ہوں۔ خصوصا عورتوں کے باب میں۔ عرب کی تہذیب جاہلی میں آج کل کی جاہلی تہذیبوں کی طرح یہ دستور تھا کہ لیڈیاں تصنع کے بڑے بڑے طریقوں سے آواز اور لب و لہجہ میں طرح طرح کی رعنائی، نزاکت اور لفریبی پیدا کرتی تھیں۔ یہ ہنر وہاں کی فیشن ایبل سوسائٹی میں داخل تھا، اس لیے اس کی ممانعت خاص طور پر ہوئی۔ کماکانت الحال علیہ فی نساء العرب من مکالمۃ الرجال ترغبھم الصوت ولینہ مثل کلام المریبات والمؤسات (قرطبی) اور جب مطلق گفتگو کے باب میں یہ اہتمام ہے تو نغمہ وموسیقی ظاہر ہے کہ عورت حلق ودہن سے نکلا ہوانامحرم کے حق میں کیا حکم رکھے گا۔ 61۔ یعنی حیاء وعزت وآبرو کے جو قاعدے شرفاء میں چلے ہوتے ہیں، اپنا لب و لہجہ ان کے مطابق رکھو، تاکہ کسی بدکردار فاسد المزاج کو آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہ پڑے۔ اس حکم کی جو اہمیت مدینہ کی ناموافق فضا میں تھی، وہی اہمیت عام مومنات کے لیے آج کی غیر صالح فاسقانہ فاجرانہ فضا میں بھی ہے۔ ہاں مضبوط شریفانہ لہجہ اور ہے اور دلشکن اور دلآزار لہجہ اور۔ فقہاء نے اس پر قیاس کرکے لکھا ہے کہ اسی طرح مردوں کو بھی تلذذ فاسقانہ کی باتیں کرنا حرام ہیں۔ اور خود مردوں مردوں، عورتوں عورتوں کے درمیان بھی، اور فقہاء حنفیہ نے اس آیت کے ذیل میں متعدد مسئلے ذکر کیے ہیں۔ مثلا یہ کہ عورت کے لیے اتنی بلند آواز سے گفتگو کرنی درست نہیں جسے مرد سنیں۔ وفیہ الدلالۃ علی ان الاحسن بالمرأۃ ان لاترفع صو تھا بحیث یسمعھا الرجال (جصاص) اور یہ بھی کہ جب عورت کے پیر کے زیوروں کی آواز ممنوع ہے تو جوان عورت کے کلام کی آواز تو بدرجہ اولی ممنوع ٹھہرے گی۔ وکذلک قال اصحابنا وقال اللہ تعالیٰ فی ایۃ اخری ولا یضر بن بارجلھن الخ فاذا کانت منھیۃ عن السماع صوت خلخالھا فکلامھا اذا کانت شابۃ تخشی من قبلھا الفتنۃ اولی بالنھی عنہ (جصاص)
Top